پاکستان اورافغانستان کا مزاحمت کاروں سے رابطوں کا فیصلہ
5 دسمبر 2008اس گروپ میں شامل پاکستانی ارکان کی سربراہی صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی کریں گے جبکہ افغان گروپ کی قیادت سابق وزیر خارجہ عبداللہ عبداللہ کے پاس ہو گی۔ دونوں ذیلی گروپ اپنے اپنے ملکوں میں متحرک مزاحمت کاروں کے سربراہان سے رابطے کرنے کے بعد دسمبر کے آخر میں پشاور میں جمع ہوں گے اور اس اجلاس میں طرفین ایک دوسرے کو اپنی اپنی رابطہ کوششوں کے نتائج سے آگاہ کریں گے۔
اس ورکنگ گروپ کے قیام کا فیصلہ گورنر سرحد اویس احمد غنی کے دورہ کابل کے دوران کیا گیا جہاں انہوں نے افغانستان کے نائب وزیر خارجہ اور پاک افغان منی جرگہ کے سربراہ فاروق وردگ سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں منی جرگہ کی جانب سے دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے اور قیام امن کے لئے کوششوں میں اب تک کی پیش رفت کا جائزہ بھی لیا گیا۔
افغانستان میں اس نو تشکیل شدہ گروپ کے ارکان حزب اسلامی حکمت یار گروپ سمیت کئی مزاحمت کار تحریکوں کے سربراہان سے ملیں گے جبکہ اویس غنی کی قیادت میں اس گروپ کے پاکستانی ارکان قبائلی علاقوں میں مسلح کوششیں کرنے والے مزاحمت کاروں سے رابطے کریں گے۔
پشاور میں دسمبر کے آخر میں ہونے والے دس رکنی گروپ کے مشاورتی اجلاس میں اس وقت تک کی پیش رفت پر تبادلہ خیال کے بعد آئندہ کے لئے لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
اس گروپ کی تشکیل اور افغانستان میں قیام امن کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے پاکستانی سوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے کہا کہ اس وقت پاکستان سمیت پورےخطےکوجن مسائل کا سامنا ہے ان کی جڑیں افغانستان میں ہیں۔
اویس غنی کے بقول جب تک افغانستان میں استحکام نہیں آتا، جب تک وہاں ایک فعال حکومتی اور سیکیورٹی نظام قائم نہیں ہوتا، تب تک افغانستان میں افراتفری کا ماحول باقی رہے گا اور پاکستان اس کے اثرات کی زد میں رہے گا۔ گورنر غنی نے کہا کہ آج بھی پاکستان کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں سے زیادہ تر کی وجہ افغانستان ہے۔