پاکستان: انتخابات کے ایک سال بعد
18 فروری 2009نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی برادری کا بھی پرویز مشرف پر سے اعتماد اٹھ چکا تھا، جو ہر قیمت پر برسر اقتدار رہنا چاہتے تھے۔
بہت سے لوگوں نے یہ امیدیں لگا رکھی تھیں کہ ایک جمہوری حکومت عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں عوام کو بہتر طریقے سے متحرک کر سکے گی تاہم ایک سال بعد بھی یہ بات واضح نہ ہو سکی کہ فوج نے سیاست سے کس حد تک دوری اختیار کر لی ہے۔
برلن کے ماہر سیاسیات وولف گانگ میرکل نے پاکستان کی جمہوریت کو ناقص قرار دیتے ہوئے کہا:’’فوج اپنے لئے ایک طرح سے چھا جانے والے کردار کا حق جتاتی ہے۔ اس صورت میں بھی جب آزادانہ انتخابات ہو چکے ہوں۔‘‘
بیشتر پاکستانی سیاستدانوں کا خیال ہے کہ جمہوریت پسندوں نے فوج کو اقتدار سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا ہے۔ ملک کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال کہتے ہیں: ’’عوام نے ہر ڈکٹیٹر کو جمہوری طریقے سے پسپا ہونے پر مجبور کیا۔ ہر ڈکٹیٹر کو کبھی نہ کبھی انتخابات کرانے پڑتے ہیں۔ اس کے سامنے اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ سول معاشرے نے ہر ڈکٹیٹر کے خلاف جد وجہد کی اور اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا۔‘‘
ایک سال تک لوگوں نے وکیلوں کی قیادت میں مشرف کے خلاف مظاہرے کئے کیوں کہ انہوں نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ ایک سال قبل کے انتخابات کے بعد دونوں بڑی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ ن کے اتحاد سے بڑی مخلوط حکومت قائم ہوئی لیکن مسلم لیگ ن کو جلد ہی پیچھے ہٹنا پڑا کیوں کہ پی پی پی کے سربراہ آصف زرداری معزول چیف جسٹس افتخار چوہدری کو ان کے عہدے پر بحال کرنے کے وعدے سے پھر گئے تھے۔
وفاقی جرمن پارلیمان کے ممبر ڈیٹلیف ڈسیمبرٹسکی نے پاکستانی انتخابات کے بارے میں کہا: ’’یہ نہ دیکھا جائے کہ کن جماعتوں نے کامیابی حاصل کی بلکہ یہ کہ کن جماعتوں کو عوام نے ووٹ نہیں دئیے۔ قابل غور بات یہ ہےکہ انتہا پسندوں کو کہیں بھی کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔‘‘