1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی پولیس میں جنسی عدم توازن: عام خواتین متاثر

6 اکتوبر 2010

پاکستان میں محکمہء پولیس کے ایک حالیہ سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ پولیس فورس میں مردوں کی اکثریت کے باعث خواتین پر تشدد کے زیادہ تر واقعات قانونی طور پر رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ اس کی اہم وجوہات میں خواتین اہلکاروں کی کمی ہے۔

https://p.dw.com/p/PVhZ
جرائم سے متاثرہ خواتین مرد اہلکاروں کو اپنے مسائل بتاتے ہوئے ہچکچاتی ہیںتصویر: AP

محکمہء پولیس میں خواتین کے مسائل سے آگاہی اور رویوں کو جانچنے کے لئے اسلام آباد میں نیشنل پولیس بیورو اور جرمنی کے تعاون سے ایک سروے کیا گیا۔ اس سروے کے نتائج کے مطابق خواتین کے ساتھ پیش آنے والے مجرمانہ نوعیت کے واقعات رپورٹ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ پولیس فورس میں خواتین اہلکاروں کی کمی اور کافی زیادہ حد تک پڑھی لکھی خواتین کی عدم موجودگی ہے۔

اس سروے کے نتائج پر مثبت عمل درآمد کے حوالے سے اسلام آباد کے انسپکٹر جنرل آف پولیس سید کلیم امام نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ابتدائی طور پر جرمنی کے تعاون سے پہلے اسلام آباد کے تھانوں میں خواتین کے شکایتی مراکز قائم کئے جارہے ہیں۔ بعد میں یہ سلسلہ دوسرے شہروں تک بھی پھیلا دیا جائے گا۔ تاہم اس مسئلے کا حقیقی تدارک پولیس میں زیادہ تعداد میں خواتین اہلکاروں کی بھرتی سے ہی کیا جاسکتا ہے۔

Pakistan Trauer Terrorattacke
پاکستان میں جرائم کی شکار خواتین اپنی ہم جنس پولیس اہلکاروں کو اپنے مسائل آسانی سے بتا سکتی ہیںتصویر: AP

تکنیکی تعاون کے جرمن ادارے GTZ سے وابستہ ڈاکٹر خولہ ارم کا کہنا ہے کہ پڑھی لکھی خواتین کو پولیس فورس میں بھرتی کر کے موجودہ صورت حال کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہء پولیس میں مردوں اور خواتین اہلکاروں کے مابین ان کی تعداد کے لحاظ سے جنسی عدم توازن کے باعث متاثرہ خواتین اکثر مرد اہلکاروں کو اپنے مسائل بتانے سے گریز کرتی ہیں۔

خواتین کے حقوق کے لئے کام کرنے والی ایک اہم غیر سرکاری تنظیم، عورت فاﺅنڈیشن کی رکن مینا خان کا کہنا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر پسماندہ علاقوں میں مکمل کئے گئے جائزے بھی یہی ثابت کرتے ہیں کہ تھانوں میں خواتین اہلکاروں کی عدم موجودگی بہت سی خواتین کے لئے ان گنت مسائل کو جنم دیتی ہے۔

ماہرین کاکہنا ہے کہ پولیس فورس میں جنسی عدم توازن سے معاشرے کا کافی بڑا حصہ اس قانونی تحفظ سے محروم رہ جاتا ہے، جو پولیس جیسے ادارے کے وجود کا بنیادی مقصد ہے۔ ان ماہرین کے بقول ان حالات میں بہتری کے لئے قومی سطح پر ایک جامع حکمت عملی انتہائی ضروری ہے۔

لیکن فوری طور پر یہ بہرحال کیا جانا چاہئے کہ وفاقی دارالحکومت کی طرح ملک کے دیگر تمام شہروں کے تھانوں میں بھی خواتین کے لئے شکایتی مراکز قائم کئے جائیں، تاکہ متاثرہ خواتین بلا جھجھک پولیس کی مدد حاصل کرسکیں۔

رپورٹ: رفعت سعید، کراچی

ادارت: عصمت جبیں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں