1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی نیوز چینل ’اے آر وائی‘ کے دفتر پر حملہ

بینش جاوید14 جنوری 2016

اسلام آباد میں آج بدھ کی شام دو نقاب پوش حملہ آوروں نے نجی نیوز چینل ’اے آر وائی‘ کے دفتر پر دستی بموں سے حملہ کیا، جس میں ایک شخص زخمی ہو گیا۔ دفتر کی انتظامیہ کے مطابق اس حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1HcdJ
Thema Digitalisierung des bulgarischen Fernsehens
تصویر: BGNES

اے آر وائی نیوز کی انتظامیہ کے مطابق بدھ تیرہ جنوری کی شام بغیر نمبر پلیٹ کے ایک موٹر سائیکل پر سوار دو حملہ آوروں نے اس دفتر کی عمارت پر دو گرینیڈ پھینکے اور ساتھ ہی فائرنگ بھی کی، جس کے نتیجے میں اس ٹی وی کا ایک سٹیلائٹ انجینئر زخمی ہو گیا۔

اس حملے کے بارے میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اے آر وائی نیوز کے اسلام آباد بیورو کے سربراہ صابر شاکر نے کہا، ’’اے آر وائی نے شدت پسندوں کے خلاف چند ایسی رپورٹیں نشر کی تھیں، جن کے بعد ہمیں دھمکیاں مل رہی تھیں۔‘‘ صابر شاکر کے مطابق اس ٹی وی چینل نے ڈیرہ غازی خان میں قائم ایک مدرسے پر، جو اسلام آباد میں لال مسجد کا ایک ذیلی ادارہ ہے، رینجرز کے چھاپے کی خبر بھی نشر کی تھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ امریکی ریاست کیلیفورنیا میں ایک دہشت گردانہ حملے میں ملوث پاکستانی خاتون شہری تاشفین ملک کے حوالے سے نشر کی گئی خبروں کے بعد بھی اس نشریاتی ادارے کو مختلف شدت پسند تنظیموں کی طرف سے دھمکیاں دی جا رہی تھیں۔

پاکستان میں ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ کسی میڈیا ہاؤس کے دفتر پر کسی شدت پسند تنظم کی جانب سے حملہ کیا گیا ہے۔ گزشتہ برس دسمبر میں ایک اور نجی ٹی وی چینل ’دنیا نیوز‘ کے فیصل آباد میں واقع دفتر پر بھی حملہ کیا گیا تھا، جس میں تین افراد زخمی ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ گزشتہ برس نومبر میں ایک اور پاکستانی نجی چینل ڈان نیوز کی سیٹلائٹ وین کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ اس واقعے میں اس ادارے کا ایک کارکن زخمی ہوا تھا۔

ARY Digital Pakistanischer Fernsehsender
اے آر وائی نیوز اے آر وائی گروپ کا ایک چینل ہے

‘اے آر وائی‘ کے دفتر پر آج کے حملے کے حوالے سے سینیئر پاکستانی صحافی اویس توحید نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملکی میڈیا کے لیے یہ ایک مشکل صورتحال ہے۔ پاکستانی میڈیا کو دہشت گردوں کا موقف نشر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ اسی وجہ سے وہ ہم پر حملے کر رہے ہیں۔ شدت پسند تنظیمیں چاہتی ہیں کہ پبلک میڈیا کو پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اپنے نظریات کی تشہیر کریں۔‘‘

اویس توحید نے مزید کہا کہ کسی بھی معاشرے میں قانون کی بالا دستی، اس کا احترام اور آزادی رائے انتہائی اہم ہوتے ہیں۔ ان کے بقول، ’’پاکستانی صحافیوں کے لیے ایک ایسے معاشرے میں کام کرنا انتہائی مشکل اور ایک بڑا چیلنج ہے، جہاں مختلف نظریات کے حوالے سے عدم برداشت کی سوچ پائی جاتی ہے۔‘‘