1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی عدالتوں میں15 لاکھ سے زائد مقدمات زیر التواء

7 مئی 2010

قانونی ماہرین کی نظر میں اتنی بڑی تعداد میں زیر التواء مقدمات کی وجہ ججوں اور عدالتوں کے عملے کی تعداد میں کمی، لازمی عدالتی قوانین و ضوابط پر عملدرآمد میں سست روی کے علاوہ بدعنوانی ہے۔

https://p.dw.com/p/NIyC
تصویر: AP Photo

سب سے زیادہ یعنی10 لاکھ مقدمات ضلعی عدالتوں کے پاس ہیں ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری ہونے والے ایک تازہ اعلامیے کے مطابق اس وقت عدالت عظمیٰ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد17,247 جبکہ وفاقی شرعی عدالت میں یہ تعداد17,51 ہے۔ اسی طرح لاہور ہائی کورٹ میں14 ہزار سے زائد مقدمات زیر التواء ہیں۔ قانونی ماہرین کی نظر میں اتنی بڑی تعداد میں زیر التواء مقدمات کی وجہ ججوں اور عدالتوں کے عملے کی تعداد میں کمی، لازمی عدالتی قوانین و ضوابط پر عملدرآمد میں سست روی کے علاوہ بدعنوانی کا وہ کینسر ہے جس نے عدالتی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔

Musharraf Proteste in Pakistan
پاکستان میں عدلیہ تحریک نے وکلاء کے حقوق کے حصول کی بڑی جدو جہد کی ہے۔تصویر: picture-alliance / dpa

سینئر وکیل اور مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر سید ظفر علی شاہ نے دوئچے ویلے کے ساتھ گفتگو میں مقدمات کی بروقت سماعت نہ ہو سکنے کی بڑی وجہ عدالتوں پر بے تحاشا مقدمات کے دبائو اور ججوں کی کم تعداد کو ٹھہراتے ہوئے کہا‘‘ایک سول جج کے پاس یومیہ 150 سے لے کر 175 تک مقدمات کی فہرست آویزاں ہوتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں اگر مقدمات پر ایک سطر لکھ کر آئندہ سماعت کی تاریخ لکھنے ہی کیلئے اسے ڈیڑھ دن چاہئیں۔ ایک جج کو شہادتیں قلمبند کرنے کے ساتھ ساتھ بحث سننا اور تازہ مقدمات بھی لینا پڑتے ہیں تو ایک آدمی یہ سب کچھ کس طرح کر سکتا ہے۔ کیسز کا دبائو زیادہ اور جج کم ہیں‘۔''

Pakistan Anwälte Demonstration in Islamabad
پاکستان میں مقدمات کے زیر التوا ہونے کی ایک وجہ ججوں اور عدالتی عملے کی کمی بھی ہے۔تصویر: AP

سپریم کورٹ کے اعلامیے کے مطابق جوڈیشل پالیسی2009-10 پر عملدرآمد کے نتیجے میں مقدمات کی سماعت میں تیزی آئی ہے اور حالات بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ خیال رہے کہ نیشنل جوڈیشل پالیسی2009 کے تحت سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس میں تمام زیر التواء اور تازہ مقدمات کا فیصلہ ایک سال کے اندر کئے جانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا جبکہ بلوچستان ہائی کورٹ میں مقدمات نمٹانے کیلئے 6 ماہ کا ہدف رکھا گیا تھا۔ تاہم تازہ اعداد و شمار ان اہداف کے حصول کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس صورتحال کا پس منظر بتاتے ہوئے سپریم کورٹ کی کارروائی پر نظر رکھنے والے ڈان ٹیلی ویژن سے منسلک صحافی مطیع اللہ جان نے دوئچے ویلے کو بتایا '' پہلے والے مقدمات کا فیصلہ تو درکنار مزید مقدمات دائر ہوتے جا رہے ہیں اور مقدمہ بازی کا رجحان بھی بڑھتا جا رہا ہے اور ہماری اعلیٰ عدلیہ کی آج کی ساری توجہ سیاسی اور آئینی معاملات پر مرکوز ہے ۔ بڑے بڑے بینچ ترتیب دیئے جا رہے ہیں اور عام لوگوں کے مقدمات سننے کی باری کم ہی آئی ہے۔ '' سید ظفر علی شاہ کے مطابق مستقبل میں عام شہریوں کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مقدمات کی بروقت سماعت کیلئے عدلیہ اور انتظامیہ کے درمیان تعاون کا فروغ ناگزیر ہے۔

رپورٹ شکور رحیم

ادارت کشور مصطفیٰ