1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اور افغان مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا؟

عاطف بلوچ17 اگست 2016

یورپ کا رخ کرنے والے مہاجرین میں شامی، عراقی، افغان مہاجرین کے علاوہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی ایک معقول تعداد بھی شامل ہے۔ تاہم یہ سوال برقرار ہے کہ ان پاکستانی مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا ہو گا؟

https://p.dw.com/p/1JjqJ
Griechenland Flüchtlinge von Afghanistan und Pakistan
تصویر: picture-alliance/dpa/O.Panagiotou

یورپ میں پاکستانی اور افغان مہاجرین کی صورتحال

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو ایچ سی آر) کے اعداد و شمار کے مطابق یورپ پہنچنے والے مہاجرین میں پاکستانی مہاجرین کا تناسب تین فیصد بنتا ہے۔ مہاجرین کے اس ادارے کے وسطی یورپ کے لیے ترجمان بابر بلوچ نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا ہے کہ رواں سال کے پہلے سات ماہ کے دوران سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے والے پاکستانی تارکین وطن کی تعداد آٹھ ہزار کے لگ بھگ بنتی ہے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد تقریبا تیس ہزار کے قریب تھی۔

اقوام متحدہ کے مطابق اسی طرح رواں سال کے دوران یورپ پہنچنے والے افغان مہاجرین کی تعداد بھی ایک لاکھ کے قریب ہے۔ تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان مہاجرین کا یورپ میں مستقبل کیا ہو گا؟

بابر بلوچ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان اور افغانستان سے یورپ کا سفر کرنے والے مہاجرین اپنے اس خطرناک سفر کی مختلف وجوہات بتاتے ہیں۔ اپنے تجربات اور عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کچھ مہاجرین اور تارکین وطن تو صاف صاف بتا دیتے ہیں کہ انہوں نے معاش کی تلاش میں یورپ کا رخ کیا۔ تاہم ان میں بہت سے مہاجرین ایسے بھی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ مختلف خطرات کے باعث وہ مہاجرت کے سفر پر مجبور ہوئے۔

ایسی رپورٹوں کہ یورپ شامی مہاجرین کو ترجیحی بنیادوں پر پناہ دیتا ہے جب کہ دیگر ممالک، مثال کے طور پر پاکستانی اور افغان تارکین وطن کے ساتھ مبینہ طور پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے کے جواب میں بابر بلوچ نے کہا کہ دراصل کسی بھی شخص کو پناہ اس کی قومیت یا ملک کی بنیاد پر فراہم نہیں کی جاتی ہے بلکہ ان اسباب کو دیکھا جاتا ہے، جن کی وجہ سے وہ مہاجرت پر مجبور ہوئے ہیں۔

بابر بلوچ کے مطابق اپنی بقاء کے لیے کسی دوسرے ملک میں پناہ کی تلاش بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے اور اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس تناظر میں اگر کوئی شخص، جس کی جان کو خطرات لاحق ہیں، کے پناہ حاصل کرنے کے حق کو کوئی مسترد نہیں کر سکتا ہے۔

تاہم انہوں نے کہا کہ جو لوگ معاشی وجوہات کی بنا پر ہجرت کرتے ہیں، انہیں واپس ان کے وطنوں کی جانب بھیجا جا سکتا ہے لیکن یہ دیکھنا ضروری ہو گا کہ اس ملک میں سلامتی کی صورتحال کیسی ہے۔ انہوں نے اصرار کیا کہ کسی مہاجر یا تارک وطن کو اس کے ملک واپس روانہ کرنے سے قبل یہ تصدیق کرنا البتہ ضروری ہے کہ اس کا دعویٰ درست ہے یا نہیں۔

یو این ایچ سی آر کے ترجمان برائے وسطی یورپ نے واضح کیا کہ معاش کی خاطر مہاجرت اختیار کرنے والے تارکین وطن کے حقوق کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

ان کے مطابق اقوام متحدہ نے مہاجرت کے بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک ایسا نظام وضع کر رکھا ہے، جس سے آسانی سے معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کس شخص کو حقیقی خطرات لاحق ہیں اور کون صرف اقتصادی مسائل کی خاطر ملک کو خیرباد کہتا ہے۔

بابر بلوچ کا کہنا تھا کہ کچھ یورپی ممالک میں معاش کی خاطر مہاجرت کرنے والے تارکین وطن کے ساتھ رویہ قابل اعتراض ہے۔ انہوں نے کہا کہ بنیادی طور پر ان افراد کے ساتھ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر سلوک کیا جانا چاہیے لیکن یورپی یونین کے مختلف ممالک میں اس حوالے سے مبینہ طور پر کچھ اختلافات ہیں، جس کے باعث یہ مسئلہ کچھ پیچیدہ ہو چکا ہے۔

یورپی ممالک میں شامی مہاجرین کو پناہ فراہم کیے جانے کے حوالے سے ایک اتفاق پایا جاتا ہے کیوں کہ یہ عرب ملک ہولناک خانہ جنگی کا نشانہ بنا ہوا ہے۔

عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں سے اس تنازعے کے باعث اس ملک سے ساڑھے چار ملین سے زائد افراد ملک چھوڑ چکے ہیں جب کہ آٹھ ملین سے زائد اپنے ملک میں ہی گھر بدر ہو چکے ہیں۔

UNHCR Regionaler Seniorsprecher für Zentraleuropa Babar Baloch
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے وسطی یورپ کے لیے ترجمان بابر بلوچتصویر: Babar Baloch

ایک سوال کے جواب میں بابر بلوچ نے کہا کہ یورپی حکومتوں اور عوام کو سمجھنا چاہیے کہ خانہ جنگی اور دہشت گردی سے فرار ہو کر یورپ پہنچنے والے لوگ پہلے ہی ایک صدمے کا شکار ہیں اور ایک امن کی زندگی چاہتے ہیں۔ اس لیے یورپ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات کے تناظر میں مہاجرین اور جرائم پیشہ افراد میں فرق کرنا انتہائی ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ مجرموں کی بنیاد پر مہاجرین سے خوفزدہ ہونا درست بات نہیں ہے۔

بابر بلوچ کا کہنا ہے کہ یورپی سرحدوں کی بندش سے مہاجرین کا بحران حل نہیں ہو گا بلکہ اس میں مزید شدت آ جائے گی۔ انہوں نے زور دیا کہ مہاجرت کے اسباب کا خاتمہ کرنا ہو گا اور ایسے ممالک، جو تنازعات کا شکار ہیں، وہاں امن قائم کرنا ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک دنیا میں امن قائم نہیں ہو گا، لوگ مہاجرت پر مجبور ہوتے رہیں گے۔

مہاجر خاندان افغان، مسئلہ مشرقی، مسئلہ مغرب میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں