1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاپائے روم، کیتھولک چرچ اور ولیمسن اسکینڈل

کشور مصطفٰی20 فروری 2009

پاپائے روم کی کیتھولک چرچ کے اندرفرقہ بندی ختم کرنے کی کوشش ایک سنگین تنازعہ کا باعث بن گئی۔

https://p.dw.com/p/GyMc
پاپائے روم بینیڈکٹ شانژدہمتصویر: picture-alliance/ dpa

قدامت پسند کیتھولک عیسائی گروپ پی ایس کے انگریزبشپ جنہیں بشمول اس علیحدگی پسند گروپ کے دیگر بشپس کو پاپائے روم نے دوبارہ کیتھولک چرچ میں شامل کرنے کا اعلان کیا۔ تاہم اس فیصلے سے چند روز قبل بشپ ولیمسن نے ہولو کوسٹ یا نازی دورمیں یہودیوں کے قتل عام کے واقعے کے چند پہلوؤں پر سوال اٹھائے۔ ان کے ان بیانات کی حیثیت ہولوکوسٹ کو جھٹلانے کے عمل کی سی ہے۔ اس وجہ سے تمام مسیحی دنیا میں پاپائے روم اورویٹیکن کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور پاپائے روم کے اس فیصلے پر ان کے آبائی ملک جرمنی میں مختلف حلقوں کی جانب سے سخت ناراضگی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

BdT Deutschland Vatikan Angela Merkel beim Papst
جرمن چانسلر نے ہولوکوسٹ کے واقعے کو جھٹلانے والے بشپ ولیمسن کی بحالی پر شدید احتجاج کیا تھاتصویر: AP

ولیمسن اسکینڈل:

پاپائے روم نے کیتھولک چرچ کی برادری سے خارج شدہ ایک علیحدگی پسند الٹرا کنزرویٹویا انتہائی قدامت پسند کیتھولک عیسائی گروپ پی ایس میں شامل چاربشپس بشمول انگریزبشپ رچرڈ ولیمسن کو دوبارہ چرچ میں شامل کرنے کا فیصلہ گزشتہ ماہ یعنی جنوری کے اواخر میں کیا۔ پاپائے روم ان کے ساتھ مکالمت کے فروغ کواہم سمجھتے ہیں تاہم اس گروپ کی بحالی سے چند روز قبل سینٹ پی ایس دی ٹنتھ کے ایک انگریز بشپ ریچرڈ ولیمسن نے سویڈن کے ایک ٹی وی پروگرام میں یہودیوں کے نازی سوشلسٹوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام یعنی ہولو کوسٹ کے چند پہلوؤں پر سوالات اٹھائے ۔

ان کے مطابق تاریخ میں اس امر کے ٹھوس شواہد نہیں پائے جاتے کہ نازی دور میں 6 ملین یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تھا نہ ہی اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ ان یہودیوں کے قتل عام کے لئے نازیوں نے گیس چمبرز کا استعمال کیا۔

بشپ ولیمسن کا یہ انٹرویو اگرچہ معروف جرمن جریدے اشپیگل میں شائع ہوا تاہم پاپائے روم کو غالبا اس کا علم نہیں تھا۔ جرمن کیتھولک بشپ کانفرنس کے سابق سربراہ کارڈینل کارل لیہمن نے اس بارے میں کہا:’’ میرے خیال میں کیتھولک چرچ میں کسی بھی متنازعہ گروپ یا فرد کی دوبارہ شمولیت کے فیصلے سے قبل چند بنیادی شرائط کی وضاحت ضروری ہے۔ چرچ میں دوبارہ شامل ہونے والوں کا ان شرائط کو منظور کرنا اور چند ضوابط کو تسلیم کرنا ضروری ہونا چاہئے۔ ان ہی میں سے ایک شرط ہولو کوسٹ کے واقعہ کو من و عن قبول کرنا بھی ہے۔‘‘

کارڈینل کارل لیہمن کے مطابق ’’اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ ولیمسن اسکینڈل نے کیتھولک چرچ کے اندر ہلچل مچا دی ہے۔ جس قسم کے بیانات سامنے آئے ہیں ان سے ویٹیکن کے اندر دو متضاد رجحانات کی نشاندہی ہو رہی ہے ۔ کیتھولک چرچ ترقی پسند اور قدامت پسند دو گروپوں کے مابین منقسم نظر آ رہا ہے۔‘‘

Rom Vatikan: Beerdigung von Papst Johannes Paul II., Katholische Bischöfe
کیتھولک مسیحی دوران عبادتتصویر: AP

ہولوکوسٹ کو جھٹلانے والے ولیمسن کی بحالی پر رد عمل

جرمنی اور دیگر یورپی ممالک کی جانب سے پاپائے روم کے فیصلے پر بڑھتی ہوئی تنقید اتنی شدت اختیار کر گئی کہ آخر کار انھوں نے بشپ ولیمسن کے ساتھ بذریعہ ٹیلی فون رابطہ قائم کیا اور ان سے مطالبہ کیا کہ وہ یہودیوں کے قتل عام یا ہولوکوسٹ کے بارے میں اپنے بیانات واپس لیں۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کی سربراہ اور جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے لئے پاپائے روم کا یہ اقدام کافی نہیں تھا۔ انھوں نے اس حساس معاملے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ :’’پاپائے روم اور ویٹیکن کی طرف سے اس بارے میں نہایت واضح پیغام دیا جانا چاہئے کہ ہولوکوسٹ کو جھٹلانے کی کوئی گنجائش نہیں پائی جاتی اور یہ کہ یہودیت کی طرف مثبت رویہ اختیار کیا جانا ناگزیر ہے۔ تاہم میرے خیال میں ولیمسن اسکینڈل کے ضمن میں ان اہم نقطوں کی وضاحت مکمل طور پر نہیں کی گئی۔‘‘

جرمن نژاد پاپائے روم بینیڈکٹ شانژدہم پر جرمنی کے متعدد بشپس اور کارڈنلز پر تنقید کی بوجھاڑ میں اضافے کے سبب جرمن چانسلر نے پاپائے روم سے فون پر بات کی جس کے بعد برلن اور ویٹیکن کی جانب سے ایک مشترکہ بیان میں اس امر پر زور دیا گیا کہ ہولوکوسٹ یا یہودیوں کے قتل عام کا واقعہ تمام دنیا اور ہر زمانے کے لئے ایک خوفناک یادگار اور تنبیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

برلن کے آرچ بشپ کارڈینلGeorge Sterzinsky بھی پاپائے روم کے فیصلے کے سبب سامنے آنے والے اس تنازعے کے بارے میں خاصے فکر مند ہیں۔

انھوں نے اس بارے میں ایک بیان میں کہا کہ: ’’پاپائے روم نے اگرچہ یہودیوں کے ساتھ غیرمشروط یکجہتی کا یقین دلایا ہے۔ تاہم یہ اقدام ناکافی نظر آ رہے ہیں۔ ان سے کیتھولک عیسائی اور دیگر حلقوں میں پائے جانے والے غم وغصے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔‘‘

جرمن کیتھولک چرچ کے ایک بہت سینئیر بشپ اور ماہر الہیات Hans Küng پی ایس گروپ سے تعلق رکھنے والے انگریز بشپ رچرڈ ولیمسن سے زیادہ پاپائے روم سے ناراض ہیں۔ ان کے مطابق ’’پاپائے روم کیتھولک چرچ کو دوبارہ قدامت پرستی کی طرف لے جانا چاہتے ہیں۔ اس عمل میں وہ اپنے ماتحت افراد کے ساتھ مصالحتی رویہ اختیار کرنے کے بارے میں ذرا بھی سوچ بچار نہیں کر رہے۔ انھوں نے کہا کہ انہیں یاد ہے کچھ عرصہ قبل پاپائے روم نے لاطینی اور شمالی امریکی ماہرین الہیات کے تحریر، تقریر اور تعلیم دینے پر پابندی لگا دی تھی۔ انھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ وہ کیتھولک عقیدے کے ماننے والے کئی ملین انسانوں کی تضحیک کا باعث بن سکتے ہیں۔‘‘

پاپائے روم کے فیصلے کو بہت سے حلقے ہولوکوسٹ جھٹلانے والے کی بحالی کے تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔ پیرس میں قائم معروف یہودی سینٹر Simon Wiesenthal کے چوٹی کے ترجمان Simon Sammuel نے ایک بیان میں کہا کہ ویٹیکن کو اس اقدام کی سیاسی قیمت ادا کرنا ہوگی۔ بعض مبصرین کے مطابق اگر یورپ واقعی ایک باغی اور کٹرکیتھولک گروپ کو ویٹیکن کی آغوش میں جگہ دینا چاہتا ہے تو وہ ولیمسن کو لائے بغیر بھی یہ کر سکتا ہے۔ بعض ماہرین نے یہاں تک کہا کہ پاپائے روم کیونکہ بچپن میں Hitler Children نامی بچوں کی ایک فوج کے رکن تھے اس لئے انہیں ولیمسن کی بحالی کے معاملے میں زیادہ محتاط ہونا چاہئے تھا۔ اس قسم کے خیالات کے اظہار کے جواب میں ویٹیکن کے ایک نمائندے Frederico Lambardi نے کہا کہ ’’یہ ولیمسن کے ہولوکوسٹ سے متعلق ذاتی خیالات ہیں جن سے ویٹیکن اتفاق نہیں کرتا۔ انہیں ایسی بات نہیں کہنی چاہئے تھی۔ تاہم اس قسم کے بیانات الحاد کے زمرے میں نہیں آتے اس لئے ولیمسن کی بحالی کے فیصلے کو ان کے ہولوکوسٹ کے بارے میں بیانات کے ساتھ نہیں ملایا جانا چاہئے۔‘‘

Symbolbild Holocaust Vatikan Dilema
بشپ ولیمسن کو پاپائے روم نے جنوری میں ان کے منسب پر بحال کر دیا تھاتصویر: picture-alliance / dpa

بشپ ولیمسن کا بیان:

ادھر انگریز بشپ ولیمسن نے پاپائے روم کے اس مطالبے کے جواب میں کہ انہیں ہولوکوسٹ کے بارے میں اپنے خیالات پر نظر ثانی کرکے اسں تاریخی واقعہ سے متعلق شکوک و شبہات سے عبارت اپنے بیان کو واپس لینا چاہئے ولیمسن نے کہا کہ انہیں تاریخ کا باریک بینی سے مطالعہ کرنا ہوگا اور اس کے لئے انہیں وقت چاہئے۔ ان کے خیال میں نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام میں چھ ملینکے بجائے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان یہودی مارے گئے تھے اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ وہ تاریخ کے بغور مطالعہ کے بعد ہی بتا سکتے ہیں کہ یہودیوں کو گیس چیمبرز میں ڈالا گیا تھا کہ نہیں اور یہ کہ اس بہیمانہ عمل میں کونسی تکنیک استعمال کی گئی تھی۔

یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ جرمنی اور چند دیگر یورپی ممالک میں ہولوکوسٹ یا نازی دور میں یہودیوں کے قتل عام کے موضوع کے کسی بھی پہلو کو جھٹلانا یا اس بارے میں سوالات اٹھانا جرم ہے۔

ویٹیکن کی تاریخ اور اسکی اہمیت:

عیسائیت کے سب سے بڑے فرقے رومن کیتھولک کے لئے ویٹیکن غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ویٹیکن ایک خود مختار ریاست ہے جس کا سربراہ Pope ہوتا ہے اور اس ریاست کے مختلف عہدوں پر کارڈینلز اور مختلف مذہبی رہنما متعین کئے جاتے ہیں۔ بحیثیت ایک ریاست ویٹیکن کا وجود 1929 میں عمل میں آیا۔ تاہم مذہبی طور پر اس کو ہولی سٹی یا مقدس شہر کا مقام بعد میں دیا گیا۔ اس کے تحت ویٹیکن کے رہنما Pope کو تمام کیتھولک مسیحیوں کے سب سے بڑے روحانی پیشواء کی حیثیت حاصل ہے اور اس طرح ویٹیکن کے فیصلوں کو اتنا ہی مقدس سمجھا جاتا ہے جتنا کہ آسمانی صحیفے انجیل کے الفاظ کو اور ان کے فیصلوں کی خلاف ورزی یا ان سے اتفاق نہ کرنے واوں کو چرچ سے خارج کر دیا جاتا ہے۔

کیتھولک مسیحی دنیا پاپائے روم اور ویٹیکن کے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ اس بارے میں پاکستان میں کیتھولک بشپس کانفرنس کے ایک چوٹی کے ترجمان فادر جیکب جوزف نے ڈوئچے ویلے کو ایک خصوصی انٹر ویو دیتے ہوئے کہا ’’ ویٹیکن کے پاپائے روم تمام کیتھولک مسیحی برادری کے سب سے بڑے روحانی پیشوا ہیں اور مسیحیوں کے عقیدے کے مطابق انہیں مقدس پطرس نے اپنا گدی نشین مقرر کیا تھا۔‘‘

فادر جیکب نے کہا کہ پاپائے روم کا ہر فیصلہ عیسٰی علیہ سلام کے حکم کے مطابق ہوتا ہے اس لئے وہ اپنے تمام فیصلوں کے خود ذمہ دار ہیں۔ ان کے بیان اور ان کے فیصلے پر کوئی رائے دینا ان کی شان میں گستاخی ہے۔ فادر جیکب نے کہا کہ سابق پاپائے روم پوپ جان پال کے دور میں کیتھولک چرچ سے جن افراد کو خارج کیا گیا تھا اس کی کوئی ٹھوس وجہ رہی ہوگی۔ اسی طرح پاپائے روم بینیڈک شانژدھم نے اگر ولیمسن کو بشمولیت سینٹ پی ایس گروپ کے دیگر بشپس کو دوبارہ کیتھولک چرچ میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا تو یقینا ان بشپس نے ان سے اپنی غلطیوں کی معافی مانگ لی ہوگی اور معاف کرنا مسیحیت کی روح کے عین مطابق ہے۔

Weltjugendtag in Sydney - Papst Benedikt XVI
پاپائے روم آسٹریلیوی شہر سڈنی میںتصویر: AP

عیسائیت کے اندر فرقہ بندی کی تاریخ

:

عیسائیت کے اندر مختلف فرقوں کے جنم لینے کے واقعات کے تاریخی پس منظر پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ زیادہ تر اختلافات رومن کیتھولک پادریوں اور Pope کے انداز حکمرانی کے سبب پیدا ہوئے اور اس کے احتجاج کی صورت میں عیسائی مذہب بہت سے فرقوں میں بٹ گیا۔ ایک معروف کرسچن جریدے Christianity Today اور ویب سائٹ ChristianityToday.com کے ایک اندازے کے مطابق عیسائیت کے چھوٹے بڑے ہزاروں فرقے پائے جاتے ہیں۔ تاہم ان میں سے 5 اپنی رکنیت کی تعداد اور اپنے اثرو رسوخ کے اعتبار سے زیادہ اہمیت کے حامل ہیں۔ رومن کیتھولک خود کو حضرت عیسٰی کی تعلیمات کا بہترین اور خالص عملی نمونہ سمجھتے ہیں۔ اس مذہبی اجارہ داری کے خلاف سب سے پہلے Eastern Orthodox عیسائی علیحدہ ہوئے۔ پھر Oriental Orthodox فرقہ وجود میں آیا اور اس کے بعد ہنری ہشتم کے دور میں پہلے پروٹسٹنٹ اور پھر Anglican چرچ علیحدہ ہوا۔

Papst und US Juden
پاپائے روم نے کہا تھا کہ ہولوکاسٹ کو کسی بھی صورت میں جھٹلانا ناقابل برداشت عمل ہےتصویر: AP

عیسائیوں اور یہودیوں کے مابین تناؤ

:

حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات کے 80 برس بعد عیسائیوں اور یہودیوں کے درمیان کشیدگی کھل کر سامنے آئی۔ اس وقت تک یہ دونوں ایک ہی عبادت گاہ میں اکھٹے عبادات کیا کرتے تھے۔ تاہم چند یہودی رہنماؤں یا ربائیوں نے ان یہودیوں کو اپنی برادری سے خارج کر دیا جن پر انہیں شک تھا کہ وہ حضرت موسٰی کے بجائے حضرت عیسٰی کے پیروکار ہیں۔ عیسائیوں کے علماء نے متعدد جگہوں پر اس امر کا ذکر کیا ہے کہ حضرت عیسٰی کو مصلوب کرنے والے یہودی تھے۔ یہاں تک کہ انجیل کا ایک حصہ جسے Gospel of John کہتے ہیں، رومنوں سے زیادہ یہودیوں کو حضرت عیسٰی کے قتل کا ذمہ دار ٹھراتا ہے۔ اس بارے میں ایک یہودی ریبائی James Rüdin کہتے ہیں کہ یہودیوں پر یہ الزام عائد ہے کہ انھوں نے خدا کا قتل کیا ہے اور مورد الزام محض وہ یہودی نہیں جو حضرت عیسٰی کے دور میں موجود تھے بلکہ تمام آنے والی یہودی نسلیں اس جرم میں ملوث کر دی گئیں۔

1190 میں سب سے پہلے لاطینی زبان میں Holocaustum کا لفظ استعمال کیا گیا یہودیوں کے قتل عام کے لئے ۔ دراصل یہ اصطلاح یونانی زبان کے دوالفاظ Holo اورCaustic کا مرکب ہے ۔ یعنی مکمل اور جلانا۔ یہ اصطلاح قدیم یونان میں دیوتاؤں کے حضور قربانی پیش کرنے کے لئے استعمال کی جاتی

Thermo Volt in Vatican City
ویٹیکن سٹی کا ایک منظرتصویر: SolarWorld AG

ہیں۔

سینٹ پی ایس دی ٹنتھ گروپ کون ہے؟

30 سال قبل 1969 میں سوئٹزرلینڈ میں Marcel Lefe Buvre سوسائٹی آف Saint Pious the10th کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اس وقت اس گروپ کا مقصد کیتھولک چرچ سے علیحدگی کا اظہار نہیں تھا تاہم پادری Lefe Buvre نے ویٹیکن کے اس فیصلے کے خلاف شدید احتجاج کیا تھا کہ دوسرے مذاہب کے ساتھ مفاہمت کا قدم اٹھایا جائے اور عیسائیوں کی عبادات یاMass لاطینی زبان کے بجائے مقامی زبانوں میں ہونی چاہئیں۔

ویٹیکن کے اندر اس گروپ کو باغی گروپ تصور کیا جانے لگا اور 1987 میں اسے ویٹیکن نے باقائدہ طور پر علیدگی پسند گروپ قرار دے دیا۔ اس کے رد عمل کے طور پر پی ایس گروپ کے سربراہ پادری Lefe Buvre نے کہا کہ ان کا گروپ بشپس کی تقرری خود کرے گا۔ 1988 میں ویٹیکن نے تنبیہ کی تھی کہ اس اقدام کے نتیجے میں تمام بشپس بشمول آرچ بشپ کو ویٹیکن سے خارج کر دیا جائے گا۔ ویٹیکن اور پی ایس گروپ کے مابین تنازعات میں اضافہ بڑھتا گیا اور آخر کار 1998 میں سوئٹزرلینڈ کے ایک مقام Econe میں چار بشپس مقرر کئے۔ جن میں سے ایک انگریز بشپ رچرڈ ولیمسن بھی تھے۔ ان چاروں کو ویٹیکن نے اپنی برادری سے خارج کر دیا۔