پارلیمانی کمیٹی برائے ججوں کی تقرری بحران کا شکار
17 نومبر 2010حکمران پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعتوں ایم کیو ایم ، اے این پی اور جمعیت علمائے اسلام کے رہنماﺅں کا کہنا ہے کہ انہیں اس اہم کمیٹی میں ارکان کی نامزدگیوں کے لئے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ حکمران اتحاد میں شامل دوسری بڑی جماعت ایم کیو ایم کے رہنما اور وفاقی وزیر بابر خان غوری کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمانی کمیٹی میں اپنے ہی چاروں ارکان کی تقرری اتحادیوں پر بدترین عدم اعتماد ہے۔ انہوں نے کہا ”مسلم لیگ ن اور ق کے آپس میں تنازعات کے باوجود انہوں نے مشاورت کر کے اپوزیشن سے اپنے مشترکہ نام دیئے لیکن حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی اور ہمیں اعتماد میں لئے بغیر حکومت نے چار نام دے دیئے ہیں جس پر ہمیں مایوسی ہوئی ہے۔“
ادھر جمعیت علمائے اسلام کے رہنما مولانا فضل الرحمن نے اس بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی خواہش ہے کہ وہ تنہا تمام اداروں کا کنٹرول حاصل کر لے۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا
”یہ پارلیمان کا فیصلہ نہیں بلکہ پارٹی کا فیصلہ ہے اور حکومت کو سوچنا ہوگا کہ وہ اپنی اتحادی جماعتوں کو کس قدر اعتماد میں رکھنا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں جو بھی اتحادی جماعتیں ہیں ان کی اپنی حیثیت ہے جسے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔“
حکمران اتحاد کی ایک اور اہم جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا ہے کہ ججوں کی نامزدگی کی منظوری دینا کوئی معمولی بات نہیں اور اس کے لئے اتحادیوں سے مشاورت ناگزیر ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سینیٹر زاہد خان نے کہا کہ
” چونکہ ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا اس لیے جس کو منتخب کیا گیا ہے ہم اس کی حمایت نہیں کریں گے اور اس فیصلے کے جو بھی نتائج ہونگے اس کی صرف اور صرف پیپلز پارٹی ذمہ دار ہوگی۔“
ادھر پیپلز پارٹی کی جانب سے اس بارے میں کسی قسم کا ردعمل ظاہر نہیں کیا گیا اور پیپلز پارٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ نامزدگیاں ان کا حق تھا جو انہوں نے کر لی ہیں ۔اس پارلیمانی کمیٹی کا پہلا اجلاس بائیس نومبر کو ہوگا جس میں عدالتی کمیشن کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ کے نئے چیف جسٹس کے لئے بھجوائے گئے جسٹس اعجاز چوہدری کے نام پر غور کیا جائے گا۔ خیال رہے کہ پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ججوں کی تقرری کے لئے جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس کے تحت پہلے چیف جسٹس آف پاکستان کی سربراہی میں کمیشن جج کے نام کی منظوری دیتا ہے اور اس کے بعد پارلیمانی کمیٹی اس نام کو منظوری کے بعد صدر کو بھجواتی ہے اور پھر صدر کے دستخطوں سے نئے جج کا تقرر عمل میں آتا ہے۔ تاہم حال ہی میں بننے والا عدالتی کمیشن اور پارلیمانی کمیٹی اپنی تشکیل کے وقت ارکان کی نامزدگیوں کے حوالے سے تنازعات کا شکار ہوئے ہیں۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: کشور مضطفیٰ