1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹیکس سکینڈل کی گونج جرمنی سے آسٹریلیا تک

27 فروری 2008

ٹیکس چوری کے کیس میں جرمن وکلاءاستغاثہ اس وقت 163 افراد کے خلاف اپنی تحقیقات جاری رکھے ہوئے ہیں اور استغاثہ کا دعویٰ ہے کہ اب تک اس سلسلے میں 27.8 ملین‘ یعنی تقریباً دو کروڑ اسی لاکھ‘ یوروز بر آمد کئے جا چکے ہیں۔

https://p.dw.com/p/DYEa
تصویر: AP

جرمن وکلاءاستغاثہ کا کہنا ہے کہ بہت عرصے سے کئی افراد ٹیکس سے بچنے کے لئے نہ صرف یورپ کے مختلف ممالک بلکہ امریکہ‘ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے مختلف بنکوں میں بھاری رقم جمع کراچکے ہیں۔

جرمن شہر بوخم میں وکیل استغاثہ‘ HANS ULRICH KRUECK نے مقامی ٹیلی ویژن چینلوں کو اس کیس کی چند تازہ تفصیلات دیتے ہوئے کہا کہ اب ٹیکس چوری کیس میں تحقیقات کا دائرہ وسیع کردیا گیا ہے ۔ان کے مطابق 163 مشتبہ افراد میں سے کم از کم 91نے یہ بات اب تسلیم بھی کرلی ہے کہ انہوں نے ٹیکس سے بچنے کے لئے دوسرے ممالک کے بنکوں میں کئی ملین یوروز کی رقم جمع کر رکھی ہے۔

اس سارے معاملے کی اصل شروعات چودہ فروری کو ہوئی جب جرمن ڈاک کمپنی‘ DEUTSCHE POST کے اس وقت کے چیف ایکزیکٹیو‘ KLAUS ZUMWINKEL‘ کی رہائش گاہ پر چھاپا مارا گیا اور انہیں ٹیکس چوری کے الزامات کے تحت حراست میں لے لیا گیا۔ ان الزامات کے پیش نظر کلاز سم ونکل کو اپنے عہدے سے مستعفی ہونا پڑا اور ان کا استعفیٰ وفاقی جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے فوراً ہی منظور بھی کرلیا۔

ٹیکس چوری کے اس کیس کی شروعات جرمنی سے ہی ہوئی جب BLACK MONEY یا سیاہ آمدنی رکھنے کے الزام میں جرمنی کے ایک اہم ادارے ڈوئچے پوسٹ کے سابقہ چیف ایکزیکیٹو KLAUS ZUMWINKEL کا نام جرمن اخبارات‘ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی سرخیوں کی زینت بنا۔

اس سلسلے میں تازہ تفصیلات کے مطابق مختلف کاروباری اور دولت مند شحضیات نے ٹیکس سے بچنے کے لئے یورپ کے ایک چھوٹے سے ملک Liechtenstein کے بینکوں میں بھاری رقوم جمع کرا رکھی ہیں۔Liechtenstein کے بینکوں سے خفیہ Dataکے چوری ہونےکی تحقیقات کا آغاز بھی ہو گیا ہے۔اِس مناسبت سےLiechtensteinکے تفتیشی حکام نےLGT Bankکے سابقہ ملازمین کو دائرہ تحقیقات میں لایا ہے اور اب گمان کیا جا رہا ہے کہ اُنہوںنے خفیہ Data غیر ملکی حکام‘ بالخصوص‘ جرمنی کو فروخت کیا ہے۔ایک اندازے کے مطابق جرمنی کے خفیہ اداروں نے یہ معلومات پچاس لاکھ یوروز میں خریدی ہیں۔

جرمن حکومت کی جانب یہ اعلان بھی سامنے آیا ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے ساتھ بغیر معاوضے کے تعاون کرنے پر تیار ہیں حالانکہ خود جرمنی نے یہ خفیہ Data کروڑوں روپے میں خریدا ہے۔
جرمنی کے علاوہ سپین‘ نیوزی لینڈ‘ آسٹریلیا‘ برطانیہ‘ امریکہ اور ہالینڈ میں بھی ٹیکس حکام ٹیکس چوری کے کیس میں اپنی اپنی تحقیقات شروع کرچکے ہیں۔