1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

يورپ سے ملک بدر کيے گئے افغان دوبارہ قسمت آزمانے پر تيار

عاصم سليم16 نومبر 2015

يورپی ممالک سے ملک بدر کر ديے گئے افغانیوں کی ايک بڑی تعداد افغانستان ميں عدم استحکام، سکيورٹی کی ابتر صورتحال اور بیروزگاری کے سبب تمام تر خطرات مول ليتے ہوئے دوبارہ يورپ پہنچنے کی خواہاں ہے۔

https://p.dw.com/p/1H6PY
تصویر: Getty Images/AFP/L. Gouliamaki

مغربی افغانستان کے صوبے وردک سے تعلق رکھنے والا 28 سالہ حامد رستمی آج کل اپنے اہل خانہ سے دور دارالحکومت کابل ميں زندگی گزار رہا ہے۔ رستمی نے يورپ ميں مستقل قيام کے ليے اپنی قسمت آزمائی تھی لیکن گزشتہ سال ڈنمارک حکام نے ملک بدر کر ديا گيا تھا۔ رستمی ان دنوں بے روزگار ہے ليکن وہ اپنے گھر کا رخ نہيں کر سکتا۔ وہ ہزارا شیعہ کميونٹی سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے بقول پچھلے کچھ دنوں ميں طالبان نے اس کميونٹی کے درجنوں افراد کو قتل کر ديا ہے۔ موجودہ صورتحال ميں رستمی کے پاس مواقع کے سخت کم ہیں اور وہ کابل کی سردی ميں بيٹھ کر بس يہی سوچتا رہتا ہے کہ کس طرح يورپ واپس جا کر ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی جائے۔

رستمی کے بقول اگر اس کے پاس رقم کا انتظام ہو جائے، تو وہ دوبارہ يورپ جانے کی کوشش کرے گا۔ اُس کا کہنا ہے ’’يہاں گزر بسر کرنا کافی دشوار ہو گيا ہے۔ نہ سکيورٹی ہے اور نہ ہی نوکری، اگر آپ گھر سے باہر نکليں، تو يہ معلوم نہيں ہوتا کہ آپ کے ساتھ کيا ہو گا۔ انسان کہيں نہيں جا سکتا۔‘‘

يورپی حکومتوں نے مہاجرين کی بڑی تعداد ميں آمد کے سبب يہ فيصلہ تو لے ليا کہ سياسی پناہ کے ليے ’غير مستحق‘ قرار ديے جانے والوں کو ملک بدر کر ديا جائے گا تاہم ہزارہا افراد کے ليے يہ فيصلہ کافی مشکل ثابت ہو گا۔ برطانيہ کی يونيورسٹی آف سسکس ميں افغان امور کی ریسرچر سيری اوئپن کہتی ہيں، ’’سچ تو يہ ہے کہ پاليسی ساز کچھ بھی سوچيں اور چاہيں، ملک بدر کر ديے جانے والے اکثريتی افغان شہری دوبارہ يورپ پہنچنے کی پھر کوشش کريں گے۔‘‘

اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين UNHCR کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک ڈيڑھ لاکھ کے قريب افغان شہری يونان کے راستے يورپ پہنچ چکے ہيں۔ شامی شہريوں کے بعد يورپ ميں پناہ کے متلاشی افراد کی يہ دوسری سب سے بڑی تعداد ہے۔ گزشتہ چودہ برس کے دوران کابل حکومت کو کئی بلين ڈالر کی مالی امداد کے باوجود رواں سال کے پہلے چھ ماہ ميں چاليس ہزار افغان باشندوں نے يورپی يونين کے رکن ممالک ميں سياسی پناہ کی باقاعدہ درخواستيں جمع کرائيں۔

لندن کی سٹی يونيورسٹی ميں ہجرت سے متعلق امور کی ايک ماہر ليزا شسٹر نے اس بارے ميں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان ميں صرف يا تو کافی امير يا پھر کافی غريب لوگ يورپ آنے کا نہيں سوچ رہے۔ انہوں نے کہا ’’يہ مسئلہ ايک تو يورپ ميں زندگی کے غير حقيقی تصور کی وجہ سے ہے اور دوسرا افغانستان ميں مشکل صورتحال کے سبب۔‘‘

افغان وزير خارجہ صلاح الدين ربانی اور وزير برائے مہاجرين سيد حسين عليمی بلخی نے يورپی يونين کے سفارت کاروں سے ملاقات کی
افغان وزير خارجہ صلاح الدين ربانی اور وزير برائے مہاجرين سيد حسين عليمی بلخی نے يورپی يونين کے سفارت کاروں سے ملاقات کیتصویر: MFA

پيرس ميں دہشت گردی کے حاليہ واقعات سے قبل بھی يورپی حکومتوں پر مہاجرين کی آمد کے سلسلے کو روکنے کے ليے کافی دباؤ تھا۔ کچھ ماہ قبل تک نرم پاليسی کے حامل ممالک جرمنی اور سويڈن نے بھی حال ہی ميں سخت تر اقدامات متعارف کرانا شروع کر ديے ہيں۔

دوسری طرف افغان حکومت کشمکش ميں پڑی ہے۔ ايک طرف اسے بھاری مالی امداد دينے والے ممالک کے مطالبات کو پورا کرنا ہے تو دوسری جانب اسے ملک بدر کرديے جانے والے ہزارہا افغان شہريوں کی واپسی کا سامنا بھی ہے۔ افغان وزير خارجہ صلاح الدين ربانی اور وزير برائے مہاجرين سيد حسين عليمی بلخی نے يورپی يونين کے سفارت کاروں سے ملاقات کی اور ان سے درخواست کی کہ موسم سرما کی آمد اور سکيورٹی کی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے سياسی پناہ کے افغان درخواست دہندگان کے ليے نرم پاليسی اختيار کی جائے۔

ايک عام افغان شہری کے ليے يورپ کے سفر پر قريب سات سے آٹھ ہزار ڈالر تک کے اخراجات آتے ہيں۔ يہ رقم خاصی زیادہ تو ہے ليکن رستمی جيسے افراد کے ليے تمام تر خطرات کے باوجود يورپ ميں بہتر زندگی کی کشش اس سے کہيں زيادہ اہم ہے۔