يمن ميں حکومت مخالف احتجاج ميں عورتيں پيش پيش
6 ستمبر 2011قدامت پسند مسلمان ملک يمن ميں خواتين کے حقوق کا کچھ زيادہ احترام نہيں کيا جاتا۔ اکثر اُنہيں شادی پر مجبور کيا جاتا ہے اور بعض کو جسمانی تشدد کا نشانہ بھی بنايا جاتا ہے۔
يمن ميں صدرعلی عبداللہ صالح کی حکومت کے مخالفين نے دارالحکومت صنعاء کی يونيورسٹی کے سامنے کے قطعہء اراضی کو ’تبديلی کا چوک‘ کا نام ديا ہے۔ سات سے بھی زيادہ مہينوں سے يہاں سينکڑوں رنگ برنگے خيمے تنے ہوئے ہيں، جھنڈے لہرا رہے ہيں اور احتجاجی بينر لگے ہوئے ہيں۔
حيرت انگيز بات يہ ہے کہ يہاں جمع مظاہرين ميں بہت سی خواتین بھی ہيں۔ ملک کے جنوب ميں بھی حکومت مخالف تحريک ميں شامل عورتيں صدر سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہی ہيں۔ عرب فورم فار ہيومن رائٹس کا صدر دفتر صنعاء ميں ہے۔ اُس کی چیئر پرسن عمال باشا نے کہا، ’ خواتین اس چوک ميں رات بھی گزارتی ہيں۔ پہلی بار ہوا ہے کہ آپ کسی ايسی جگہ ہزاروں عورتوں کو ديکھ سکتے ہيں۔ وہ مکمل طور پر سياہ لبادوں ميں چھپی ہوئی ہيں اور نعرے لگا رہی ہيں‘۔
ليکن عمال باشا کا حليہ قدرے مختلف ہے۔ وہ روايتی يمنی اسلامی لباس اور نقاب کے بجائے پتلون پہنے ہوئے ہيں اور اُن کے بال کھلے ہوئے ہيں۔ اُن کے مطابق عورتوں کے احتجاج کی بہت سی وجوہات ہيں، ’ہمارے ہاں ناخواندگی کی شرح سب سے اونچی ہے۔ بعض ديہی علاقوں ميں يہ شرح 70 یا 80 فيصد ہے۔ ہمارے ہاں زچگی کے دوران مرنے والی عورتوں کی شرح بھی بہت ہی زيادہ ہے۔ شادی کی عمر يہاں بہت کم ہے اور بہت بڑی تعداد ميں کم عمر لڑکيوں کو جنسی زيادتيوں کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ اس طرح يمن کے اس نظام ميں عورتيں سب سے زيادہ مسائل سے دوچار ہيں‘۔
سياہ لباس اور نقاب ميں چھپی تين بچوں کی ماں 32 سالہ کرمان توکل غير حکومتی تنظيم ’زنجيروں سے آزاد صحافی خواتين‘ کی بانيوں ميں شامل ہيں اور وہ برسوں سے اظہار رائے کی آزادی اور انسانی حقوق کے ليے لڑ رہی ہيں۔ اُن کے خيال ميں يہ آزادی اور يہ حقوق صرف اُس صورت ميں ممکن ہيں، جب يمن سے صدر صالح کا اقتدار ختم ہو جائے۔
کرمان کا کہنا ہے کہ پچھلے مہينوں کے دوران يمن ميں عورت احتجاجی تحريک کی علامت بن گئی ہے۔ يمنی معاشرے ميں غالب مرد ہی ہيں، ليکن بڑے شہروں ميں طاقتورغيرحکومتی تنظيموں کی قيادت عورتوں کے ہاتھوں ميں ہے۔
رپورٹ: يوليا ہان / شہاب احمد صديقی
ادارت: عاطف بلوچ