ویک اپ کال کے بعد بالآخر ایک صحیح فیصلہ
28 جنوری 2009پاکستانی کرکٹ ٹیم کو بیرونی کوچ کی نہیں بلکہ ایک صحیح اپروچ کی ضرورت ہے۔
جس ملک نے سرفراز نواز، عمران خان، وسیم اکرم اور وقار یونس جیسے عالمی شہرت یافتہ بولرز پیدا کئے ہوں، ماجد خان، ظہیر عباس، جاوید میاں داد اور سعید انور جیسے بیٹسمین اور عبدالقادر جیسا جادوئی لیگ اسپنر اور ثقلین مشتاق جیسا آف اسپنر پیدا کیا ہو، ایسے ملک کو غیر ملکی کوچ کی نہیں بلکہ ایک صحیح اپروچ کےساتھ دنیاء کرکٹ میں ایک بار پھر اپنی پہچان بنانا ہوگی۔
باب وولمر مرحوم اور جیف لاسن کے تجربے پہلے ہی بُری طرح ناکام ثابت ہوچکے ہیں۔
اب ایک اہم ترین مسئلے کی طرف آتے ہیں، کپتانی۔ ایک ایسے کھلاڑی کو کپتان بنانے کا کیا جواز تھا، جس کی ٹیسٹ ٹیم میں شمولیت پر ہی سوالیہ نشان تھا؟
شعیب ملک ون ڈے میچوں کے لئے ایک ’افیکٹیو‘ کرکٹر سمجھے جاتے ہیں اور اُن کی آف اسپن ون ڈے فارمیٹ میں وقتاً فوقتاً کار آمد بھی ثابت ہوتی ہے۔ لیکن کیا وہ ایک اچھے قائد ہیں، اس پر بیشتر ماہرین کی رائے ہے کہ اُن میں ایک اچھے لیڈر کی صلاحیت نہیں ہے۔
ڈومسٹک کرکٹ میں وہ بے شک اعلیٰ طریقے سے اپنی ٹیم ’سیالکوٹ سٹالینز‘کی قیادت کرتے رہے ہیں لیکن عالمی سطح پر پریشر کو ہینڈل کرنا، بالخصوص ٹیسٹ کرکٹ میں، ہرگز کوئی آسان کام نہیں ہے۔
1992ء میں عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ جیتا۔ پورے ٹورنامنٹ میں عمران کی قیادت قابل ستائش رہی، عمران کے بعد وسیم اکرم نے بھی بہت عرصے تک ٹیم کی کپتانی سنبھالی اور 1999ء میں ٹیم نے ورلڈ کپ کے فائنل تک رسائی حاصل کی جبکہ اس سے قبل 1996ء میں کوارٹر فائنل میں اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
عمران اور وسیم، دونوں ہی کے اندر قائدانہ صلاحیتیں موجود تھیں لیکن اس کے علاوہ ان میں سب سے خاص بات یہ تھی کہ دونوں ہی اپنی کارکردگی کی بناء پر ٹیم میں شامل تھے۔
کاش ہم یہی بات شعیب ملک کے لئے بھی کہہ سکتے۔ کاش!
ٹیم کی قیادت کرنے والے شخص کی سب سے بڑی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ اُس کی ٹیم میں شمولیت پر سوالیہ نشان نہ ہو اور یہ کہ شمولیت کی وجہ صرف اور صرف اُس کی کارکردگی اور قائدانہ صلاحیت ہو۔
شعیب ملک نے اب تک 21ٹیسٹ میچوں میں پاکستان کی نمائندگی کی ہے۔ اکیس ٹیسٹ میچوں میں صرف ایک سنچری، چھہ نصف سنچریاں اور تیرہ وکٹیں۔ شعیب ملک نے فی اننگز تقریباً 36 رنوں کی اوسط سے 1076 رنز بنائے ہیں۔ بھارت میں اس اوسط سے رن بنانے والے بیٹسمینوں کو ٹیم میں جگہ ہی نہیں ملتی، کپتانی تو دور کی بات ہے۔ کیا اس کارکردگی کی بناء پر شعیب کو ٹیسٹ ٹیم میں شامل کیا جانا چاہیے؟
اب رہی بات ایک روزہ میچوں کی۔ 173 ون ڈے میچوں میں ملک کی نمائندگی کرنے والے شعیب ملک نے 35.70 کی اوسط سے 4749 رنز اسکور کئے ہیں اور اتنے ہی میچوں میں 126 وکٹیں حاصل کر رکھی ہے۔ یہ کارکردگی کسی بھی لحاظ سے غیر معمولی نہیں ہے۔
سری لنکا کے ہاتھوں حالیہ ایک روزہ میچوں کی سیریز میں عبرتناک شکست کے بعد سوال یہ اُٹھا کہ موجودہ صورتحال میں کس کھلاڑی کو کپتان بنایا جانا چاہیے؟
ٹیم میں اس وقت سہیل تنویر، مصباح الحق، سلمان بٹ، شعیب اختر اور یونس خان جیسے ورلڈ کلاس کھلاڑی موجود ہیں۔ سہیل تنویر اچھے بولر ہیں بلکہ اگرانہیں آل راوٴنڈر بھی کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا لیکن شاید ان کے نوجوان کندھے ابھی کپتانی کے لئے تیار نہیں ہیں۔ 35 سالہ مصباح الحق کی عمر کپتانی کے لئے اُن کا ساتھ نہیں دیتی۔ شعیب اختر کی شخصیت متنازعہ ہے اور اُن کی فٹنس پر سوالیہ نشان۔ سلمان بٹ نوجوان کھلاڑی ہیں لیکن شاید کپتانی کے لئے ابھی پوری طرح سے تیار نہیں۔
پاکستانی کرکٹ بورڈ نے یونس خان کو کپتان بناکر ایک بروقت اور صحیح فیصلہ کیا ہے۔ اس وقت وہ ایک ایسے کھلاڑی ہیں جن کی ٹیسٹ اور ون ڈے، دونوں ہی فارمیٹس کے لئے، ٹیم میں شمولیت یقینی ہے اور غیر متنازعہ بھی۔ یونس خان نے 58 ٹیسٹ میچوں میں 15سنچریوں اور20 نصف سنچریوں کی مدد سے تقریباً 50 کی اوسط سے 4816 رنز بنا رکھے ہیں۔ ون ڈے فارمیٹ میں اُنہوں نے 6سنچریوں اور35 نصف سنچریوں کی بدولت پانچ ہزار سے زائد رن بنائے ہیں۔
ملک کے سابق کپتانوں نے یونس خان کو کپتان بنائے جانے کے فیصلے کی حمایت کی ہے، جو اس بات کا ایک اور ثبوت ہے کہ اُن کی قائدانہ صلاحیتوں پر بیشتر کرکٹرز اور ماہر متفق ہیں۔
شعیب ملک کو کپتانی سے ہٹانے کا فیصلہ اگرچہ صحیح اور بروقت فیصلہ ہے تاہم جاوید میاں داد کا بحیثیت ڈائریکٹر جنرل پی سی بی مستعفی ہونا سمجھ سے باہر ہے۔