ویٹ لفٹر پاکستانی مسیحی لڑکیاں، فتح کے لیے پُر امید
7 ستمبر 2016گزشتہ برس ٹوئنکل سہیل وہ پہلی پاکستانی خاتون ویٹ لفٹر بنیں جنہوں نے ایشیئن بینچ پریس چیمپئن شپ کے دوران 57 کلوگرام جونیئر ایونٹ میں سونے کا تمغہ حاصل کیا۔ اور اس مسیحی کھلاڑی نے یہ کامیابی اس چیمپیئن شپ میں اپنی پہلی ہی شرکت کے موقع پر سمیٹی۔
اس سے اگلے ہی دن ٹوئنکل کی ٹیم میٹ اور ایک اور مسیحی نوجوان ویٹ لفٹر سونیا عظمت نے 63 کلوگرام کیٹیگری میں پاکستان کے لیے گولڈ میڈل جیتا اور یوں انہوں نے ٹوئنکل کے ساتھ تاریخ کی کتابوں میں اپنا نام بھی لکھوا لیا۔
یہ کامیابی نہ صرف ان دونوں لڑکیوں بلکہ پاکستان میں اکثر امتیازی سلوک کا شکار ہونے والی مسیحی برادری کے لیے بھی بہت اہم تھی۔ مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کے حصے میں اکثر معاشرے کے چھوٹے موٹے کام ہی آتے ہیں۔
مسقط میں ہونے والی چیمپئن شپ میں 19 سالہ ٹوئنکل اور اسی عمر ہی کی سونیا کی فتح کے علاوہ ان کی ٹیم میں شریک ایک مسلم ویٹ لفٹر شاذیہ کنول نے بھی تیسرا گولڈ میڈل جیت لیا اور اس طرح پاکستان 12 ممالک کے ان مقابلوں میں سرفہرست ٹھہرا۔
پاکستان میں کرکٹ مقبول ترین کھیل ہے، اب کوشش کی جا رہی ہے کہ دیگر کھیلوں میں بھی کامیابی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے اور اسی لیے رواں برس تاشقند میں ہونے والی ایشیئن چیمپئن شپ میں ان خواتین کی شرکت کے لیے فنڈنگ بھی فراہم کی گئی ہے اور یہ خواتین ایک بار پھر فتح یاب ہونے کے لیے پر عزم ہیں اور سخت محنت کر رہی ہیں۔
ٹوئنکل نے اپنے کیریئر کا آغاز بطور سائیکلسٹ کیا تھا تاہم ٹریننگ کے دوران ویٹ لفٹنگ کوچز نے ان کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں اس کھیل میں قسمت آزمانے کا مشورہ دیا۔ سونیا کے علاوہ ٹوئنکل کو ویٹ لفٹنگ کی تربیت کی ذمہ داری کوچ راشد ملک نے سنبھال لی جو 2012ء کے لندن اولمپکس میں آفیشل کی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں اور ایشیئن میڈلسٹ بھی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے راشد ملک کا کہنا تھا، ’’یہ دونوں بہترین تھیں‘‘۔ ٹوئنکل اور سونیا کا تاہم کہنا ہے کہ ٹاپ پر پہنچنے کے لیے انہیں اپنی مسلم ٹیم میٹس کی نسبت زیادہ محنت کرنا پڑتی ہے اور وہ اس کے لیے تیار ہیں۔
حِرا ارشد اُس کالج میں پڑھتی ہیں جہاں ٹوئنکل تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ٹوئنکل کی کامیابی صرف مسیحی برادری کے لیے ہی ولولہ انگیز نہیں ہے بلکہ یہ تمام خواتین میں جوش و جزبے اجاگر کرنے کی وجہ ہیں: ’’ٹوئنکل کی کامیابی کے بعد اب ہر لڑکی آگے آنا اور اپنے اور اپنے ملک کے لیے نام کمانا چاہتی ہے۔‘‘ حِرا کا مزید کہنا تھا، ’’میں مسلم ہوں مگر میں اس کی کارکردگی سے متاثر ہوں۔ دیگر مسلم اور مسیحی لڑکیاں بھی اسی طرح ٹوئنکل سے متاثر ہیں اور اب بین الاقوامی سطح پر کھیلوں میں شرکت کرنا چاہتی ہیں۔‘‘
بہت سی لڑکیاں ٹوئنکل اور سونیا سے مشورے بھی حاصل کرتی ہیں۔ سونیا کے مطابق، ’’میں انہوں بتاتی ہوں کہ آئیں اور سخت محنت کریں۔۔۔ اور پاکستان کو نئی بلندیوں تک لے جائیں۔‘‘