ویٹیکن میں آئرش سفارتخانہ بند
5 نومبر 2011آئر لینڈ کے وزیر اعظم اینڈا کینی نے جمعہ کو کہا کہ جو کچھ ہوا ہے، اس پر وہ ویٹیکن کے ردعمل کو سمجھ سکتے ہیں۔ آئرش حکومت نے بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے جو اقدامات اٹھانے کا ارادہ کر رکھا ہے، انہی کے تحت یہ تین سفارتخانے بند کیے گئے ہیں۔ ان سفارتخانوں میں ویٹیکن کے علاوہ ایران اور مشرقی تیمور کے سفارتخانے بھی شامل ہیں۔
جمعرات کی رات کو ڈبلن حکومت نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے ان تینوں سفارتخانوں کو بند کر رہی ہے۔ اس اعلان پر آئرلینڈ کے کیتھولک چرچ کے سربراہ نے شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ’انتہائی مایوس کن‘ اقدام ہے۔
کارڈینل شان براڈی نے کہا کہ آئرش حکومت کے اس فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات عامہ پر اثر و رسوخ رکھنے والے ویٹیکن کی اہمیت کو ملحوظ نہیں رکھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کو یہ فیصلہ کرنے سے قبل سوچنا چاہیے تھا کہ آئرش عوام اور ویٹیکن کے مابین گزشتہ کئی صدیوں سے تاریخی نوعیت کے تعلقات پائے جاتے ہیں۔
دوسری طرف حکومت کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے نائب وزیر اعظم ایمون گِلمور نے کہا ہے کہ تینوں سفارتخانوں کو بند کرنے سے قبل دفتر خارجہ نے بیرونی ممالک میں واقع آئرش سفارتخانوں کے مالی اخراجات اور ان سے حاصل ہونے والی مالی فائدے پر تفصیلی غور کیا تھا۔
نائب وزیر اعظم کے بقول آئرش حکومت کو ملکی بجٹ خسارے پر قابو پانے کے لیے یورپی یونین اور آئی ایم ایف سے جو اہداف ملے ہیں، ان کی تکمیل کی خاطر یہ اقدامات کرنے ناگزیر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان تینوں سفارتخانوں کی بندش سے سالانہ 1.25 ملین یورو کی بچت ہو گی۔
نائب وزیر اعظم ایمون گِلمور نے مزید کہا ہے کہ رواں برس جولائی میں ویٹیکن اور ڈبلن حکومت کے مابین پیدا ہونے والی کشیدگی کا اس فیصلے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسے غلط رنگ نہیں دینا چاہیے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی