ویانا میں پہلے راوٴنڈ کی ووٹنگ بے نتیجہ
26 مارچ 2009اس ادارے کے بورڈ میں شامل پینتیس رکن ملکوں کے ممبران سیکریٹ ووٹنگ میں حصّہ لے رہے ہیں۔
66 سالہ محمد البرادئی اس سال بارہ نومبر کو ایٹمی ادارے IAEA کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے عہدے سے دستبردار ہورہے ہیں۔ گُذشتہ بارہ برس سے محمد البرادئی بین الاقوامی ایجنسی برائے ایٹمی توانائی IAEA کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی پیشہ ورانہ خدمات سرانجام دیتے آرہے ہیں۔
ایٹمی ادارے کا نیا سربراہ بننے کے لئے دو امیدوار ہیں۔ جاپان سے تعلق رکھنے والے Yukiya Amano اور جنوبی افریقہ کے عبدالصمد منتی۔ جاپانی سفارت کار اَمانو اس عہدے کے لئے مضبوط دعوے دار سمجھے جارہے ہیں۔
سفارت کاروں کے مطابق سیکریٹ بیلٹ کے پہلے غیر رسمی راوٴنڈ میں یوکیا اَمانو کے حق میں اکیس جبکہ عبدالصمد کے حق میں چودہ ووٹ پڑے۔ اس ادارے کا سربراہ بننے کے لئے فاتح امیدوار کو کم از چوبیس رکن ملکوں، دوسرے لفظوں میں، چوبیس ووٹوں کی ضرورت ہوتی ہے۔
ووٹنگ کے پہلے مرحلے میں کسی بھی امیدوار کو درکار دو تہائی اکثریت حاصل نہ ہونے کے نتیجے میں جمعہ کو دوسرے مرحلے کی ووٹنگ ہوگی۔ ووٹنگ کے اسی فیصلہ کن مرحلہ کے بعد ہی IAEA کے نئے ڈائریکٹر جنرل کا انتخاب ہوگا۔
جو بھی اس ادارے کا سربراہ بنے گا اس کے سامنے بڑے چیلنجز ہیں۔ ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام، شمالی کوریا کا جوہری منصوبہ، شام اور اس کے علاوہ ایسے ممالک جہاں سے جوہری ٹیکنالوجی کے تعلق سے سخت گیر موقف سامنے آتا رہا ہے۔
جوہری ہتھیاروں کی دوڑ ختم کرنے سے متعلق محمد البرادئی کا یہ موقف رہا ہے کہ جوہری طاقت بننے کی خواہش رکھنے والے ملکوں کو تنہا چھوڑنے اور ان پر صرف پابندیاں عائد کرنے کی بجائے معاملات کو سفارت کاری سے حل کیا جانا چاہیے۔
’’میرے خیال میں یہ مناسب موقع ہے کہ 1970ء میں طے پانے والے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاوٴ کے معاہدے پر اس مقصد سے نظر ثانی کی جائے کہ ہماری دنیا جوہری ہتھیاروں سے پاک ہوسکے۔‘‘
البرادئی عالمی طاقتوں پر زور دیتے رہے ہیں کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاوٴ میں اپنا اپنا کردار ادا کریں۔
’’ہمیں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاوٴ، جانچ پڑتال اور ایٹمی مواد کی حفاظت کو ہر حال میں یقینی بنانا ہوگا اور نیوکلیئر سپلائی سے متعلق ہمیں مختلف اقوام کی طرف سے یقین دہانیاں بھی درکار ہوں گی۔‘‘
تہران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے منصفانہ حل کے حوالے سے محمد البرادئی نے اب تک کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ مغربی ملکوں کا موقف ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن تہران حکومت کا موقف ہے کہ اس کا پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے۔