1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وقت جب سینکڑوں ایشیائی مہاجرین پھنس کر رہ گئے

عاطف توقیر3 مئی 2016

آج منگل کے روز ایشیا میں انسانی اسمگلنگ کے تنازعے کا ایک برس مکمل ہو گیا ہے۔ تب سینکڑوں روہنگیا مہاجرین جنوب ایشیائی ممالک میں پناہ کی تلاش میں بے یار و مددگار سمندروں میں بھٹکنے پر مجبور ہو گئے تھے۔

https://p.dw.com/p/1Igrv
Myanmar Rohingya
تصویر: DW/L. Kafanov

میانمار میں بدھ شدت پسندوں کے حملے سے پریشان اور قانونی تحفظ کی عدم دستیابی سے مجبور ہو کر سینکڑوں روہنگیا مسلمان پناہ کی تلاش میں کشتیوں پر سوار ہو کر دیگر جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کا رخ کرنے لگے، تاہم ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا نے انہیں اپنی سمندری حدود میں داخل تک نہ ہونے دیا۔ یہ پریشان حال مہاجرین کھلے سمندروں میں شکستہ کشتیوں پر زندگی اور موت کی کشمکش کے علاوہ بھوک اور پیاس کی سنگینی کا بھی شکار رہے، مگر کوئی ملک انہیں اپنانے کو تیار نہ ہوا۔ اس موقع پر یہ معاملہ ایک عالمی ردعمل کا باعث بنا اور اقوام متحدہ نے مقامی ممالک سے اپیل کی کہ ان مہاجرین کو پناہ دی جائے۔

سخت عالمی دباؤ میں انڈونیشیا اور ملائشیا نے روہنگیا مسلمانوں کی کشتیوں کو اپنے ساحلوں پر اترنے کی اجازت دی، تاہم انہیں یہ پناہ بس عارضی طور پر دی گئی تھی اور اب تک کوئی ایک بھی مہاجر انڈونیشیا یا ملائشیا میں بسایا نہیں گیا ہے۔

Bangladesch Rohingya Flüchtlingslager
روہنگیا نسل باشندوں کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیںتصویر: Getty Images/S. Rahman

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ پناہ گزین اب بھی مختلف عارضی مہاجر کیمپوں اور حراستی مراکز میں مقیم ہیں اور کچھ نے تو ان حالات سے تنگ آ کر اپنی زندگی کو جوکھوں میں ڈالا اور انسانوں کے اسمگلروں کے ذریعے کسی بہتر مقام کے لیے ایک بار پھر خستہ حال کشتیوں پر گہرے پانیوں کے سفر پر نکل پڑے۔

انڈونیشیا کے آچے صوبے میں ایک عارضی مہاجر بستی میں مقیم ایک پناہ گزین کا کہنا ہے، ’’میں نے انتظار کرنا سیکھ لیا ہے۔‘‘

اس 42 سالہ مہاجر کے مطابق وہ ایک ڈراؤنا خواب تھا جب کہ مختلف ممالک مہاجرین کو ایک دوسرے کی طرف بھیج رہے تھے اور سمندر کی موجوں سے ہر روز لڑنا پڑ رہا تھا، مگر کوئی بھی ملک پناہ دینے اور کشتیوں کو ساحلے سے لگنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں تھا۔

’’میں جب بھی وہ سب سوچتا ہوں تو میں اندر تک دکھ محسوس کرتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے، جیسے شاید ہم انسان ہی نہیں۔‘‘

قریب ایک ہزار روہنگیا مسلمان میانمار میں بدھ شدت پسندوں کے حملوں کے تناظر میں فرار ہو کر انڈونیشیا کے ’اسلامی شرعی نظام‘ کے حامل صوبے آچے پہنچے تھے، مگر اب یہاں صرف تین سو افراد موجود ہیں، جب کہ باقی غالباﹰ بہتر زندگی کی تلاش میں ملائشیا منتقل ہو چکے ہیں۔