1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’وانڈرنگ فیلکن‘، پاکستان کے قبائلی نظام زندگی کے خفیہ گوشوں کے بارے میں نئی کتاب

17 اکتوبر 2011

پاکستان کے ریٹائرڈ سرکاری ملازم جمیل احمد کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’The Wandering Falcon‘ میں قبائلی نظام زندگی کے وہ گوشے بے نقاب کیے گئے ہیں جو دنیا کی نگاہوں سے کافی عرصہ تک اوجھل رہے تھے۔

https://p.dw.com/p/12tFU
تصویر: AP

مذکورہ کتاب لگ بھگ 80 سالہ جمیل احمد کی ان یادداشتوں کا افسانوی رنگ ہے، جو انہوں نے افغانستان اور ایران کے ساتھ ملنے والی سرحدوں کے نزدیک قبائلی علاقوں میں اپنی تعیناتی کے دوران قلم بند کی تھیں۔ اس کتاب کو مغربی دنیا میں کافی پذیرائی حاصل ہوئی ہے کیونکہ آج کل پاکستان کے قبائلی علاقوں کو طالبان اور القاعدہ کے عسکریت پسندوں اور دہشت گردی کا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔

جمیل احمد نے اے ایف پی کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا کہ قبائل انسانیت کی تشکیل سازی کا پہلا نظام تھے اور یہ نظام صدیوں تک کامیابی سے چلتا رہا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم سب کے خون میں کسی نہ کسی لحاظ سے قبائلی روایات موجود ہیں۔‘‘ وہ افغانستان پر سوویت قبضے کے دوران پاکستان اور امریکہ کی طرف سے افغان مجاہدین کی سرپرستی کے بھی انتہائی مخالف ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس چیز نے قبائلی قیادت اور نظام کو تباہ کر دیا۔

جمیل احمد نے سن 1954ء میں پاکستان کی سول سروس میں شمولیت اختیار کی تھی اور بعد میں وہ سوات کے کمشنر بھی رہے۔ انہوں نے سن 1978ء سے سن 1980ء کا عرصہ کابل میں پاکستان کے سفارت خانے میں گزارا۔ انہیں لکھنے کی تحریک اپنی جرمن اہلیہ ہیلگا سے ملی تھی، جنہوں نے انہیں قبائلی نظام زندگی کے بارے میں لکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

Flash-Galerie Pakistan: Flüchtlinge aus Waziristan
جمیل احمد نے کہا کہ قبائل انسانیت کی تشکیل سازی کا پہلا نظام تھے اور یہ نظام صدیوں تک کامیابی سے چلتا رہاتصویر: AP

ان مختصر کہانیوں کے مجموعے کا مرکزی کردار طور باز نامی ایک لڑکا ہے۔ اس کے والدین نے بھاگ کر پسند کی شادی کر لی تھی مگر وہ قبائلی انتقام کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اپنے والدین کی ہلاکت کے بعد طور باز کو ایک خاندان نے گود لے لیا۔ بعد میں طور باز ایک بھٹکتا ہوا پنچھی بن گیا اور وہ ان کہانیوں میں مختلف روپ میں نظر آتا ہے۔

کشمیری مصنف بشارت پیر نے ’وانڈرنگ فیلکن‘ کو کئی دہائیوں بعد جنوبی ایشیا سے آنے والی مختصر کہانیوں کا بہترین مجموعہ قرار دیا ہے۔

کتاب کی امریکی مدیرہ لارا پرسیاسیپ کا کہنا ہے کہ یہ ایک ’واضح اور طاقتور کہانی‘ ہے اور ایسے علاقوں کے بارے میں ہے، جن میں امریکی قارئین کو گہری دلچسپی ہے مگر وہ اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں جانتے۔

احمد اپنی عمر اور پس منظر کے لحاظ سے پاکستانی ادب تخلیق کرنے والے دیگر شہری مصنفوں سے مختلف ہیں۔ احمد کو کبھی بھی شہری علاقوں میں دلچسپی نہیں رہی۔ کتاب کا عنوان شاید ایک لحاظ سے ان کی اپنی زندگی کی بھی عکاسی کر تا ہے کیونکہ وہ بھی تمام عمر بسلسلہ ملازمت مختلف علاقوں میں سفر کرتے رہے ہیں۔

رپورٹ: حماد کیانی/خبر رساں ادارے

ادارت: امتیاز احمد

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں