1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وادی پنجشیر میں بھی سلامتی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے

25 جولائی 2011

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے فوجی دستوں نے افغانستان کے شمالی صوبے پنجشیر میں سلامتی کی ذمہ داریاں افغان فورسز کے حوالے کردی ہیں۔

https://p.dw.com/p/122i2
تصویر: DW

پنجشیر کا شمار شورش زدہ افغانستان کے قدرے پر امن اور طالبان مخالف صوبوں میں ہوتا ہے۔ دارالحکومت کابل سے 130 کلومیٹر شمال مشرق میں واقع پنجشیر کی وادی اس سلسلے کا چھٹا علاقہ ہے جہاں کی سکیورٹی مقامی دستوں کے حوالی کی گئی ہیں۔ یہ سابق مجاہد کمانڈر احمد شاہ مسعود کا آبائی علاقہ ہے، جنہوں نے پہلے سوویت یونین اور بعد میں طالبان کے خلاف اپنے علاقے کا دفاع کیا تھا۔

پنجشیر میں اتوار کو منعقدہ تقریب میں انتقال برائے امور سلامتی کے نگران اشرف غنی احمد زئی اور وزیر دفاع عبد الرحیم وردگ سمیت متعدد دیگر افغان اور امریکی حکام نے شرکت کی۔ اشرف غنی نے اس موقع پر اپنے خطاب میں کہا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ افغان فوج اور پولیس کو سیاسی اور گروہی اثر و رسوخ سے پاک رکھا جائے۔

عبد الرحیم وردگ نے اس موقع پر خطاب میں کہا کہ اپنے علاقے کا دفاع کرنا ہر افغان پر فرض ہے، ’’ مسعود آج ہمارے درمیان نہیں، لیکن اس کی روح آج اس تقریب کے موقع پر ہمارے درمیان موجود ہے۔‘‘

AFGHANISTAN Verantwortungsübergabe an die Afghanen FLASH-GALERIE
تقریب کے دوران افغان فوج کا ایک دستہتصویر: DW

ٹھاٹھیں مارتے دریائے پنجشیر اور ہندوکش کی برف پوش پہاڑی چوٹیوں کے دامن میں واقع پنجشیر میں سوویت شکست کے آثار اب بھی زنگ آلود ٹینکوں کی شکل میں موجود ہیں۔ سرخ فوج نے اس علاقے کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے دس بار فوج کشی کی مگر ہر بار اسے ناکامی ہوئی۔ کابل حکومت کو امید ہے کہ قدرتی نظاروں سے سجی یہ وادی سیاحوں کو اپنی جانب راغب کرکے ملکی معیشت کا مضبوط سہارا بنے گی۔

وادی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کے دوران امریکی عہدیدار رچرڈ اولسن نے کہا کہ افغانستان کے لیے امریکی تعاون راتوں رات ختم نہیں ہوگا، ’’ سلامتی کی ذمہ داریوں کا انتقال دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری میں محض ایک اگلا قدم ہے۔‘‘

پنجیشیر کے بعد اب دارالحکومت کابل کی سلامتی کی ذمہ داری افغان سکیورٹی دستوں کو سونپی جائیں گی۔

رپورٹ: شادی خان سیف

ادارت: افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں