وادئ سوات: مینگورہ شہر طالبان کے چُنگل سے آزاد
30 مئی 2009سیکورٹی فورسز نے مینگورہ اور پیوچار پرمکمل کنٹرول حاصل کرنے کے بعد لوئردیر کے کھمبٹر پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کادعویٰ کیاہے جبکہ بحرین اورکالام کے علاقے بھی عسکریت پسندوں سے خالی کروا لئے گئے ہیں۔
ملاکنڈ ڈویژن کے تین اضلاع میں عسکریت پسندوں کے خلاف جاری آپریشن میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران 3 اہم کمانڈروں سمیت 25 عسکریت پسند ہلاک کر دینے کی فوجی ترجمان نے تصدیق کی ہے۔ ڈگر اور سلطان وس سے 6 عسکریت پسندوں کو گرفتار کیاگیا ہے۔ مالاکنڈ ڈویژن میں جاری آپریشن راہِ راست کی مناسبت سے بریفنگ دیتے ہوئے فوج کے ترجمان میجر جنرل اطہر عباس کاکہنا تھا کہ مینگورہ میں21 ڈاکٹروں پرمشتمل ٹیم روانہ کرنے کے علاوہ شہر کوفراہم کی جانے والی قدرتی گیس کی بحالی کے کام کا آغاز کردیا گیا ہے۔ جبکہ پانی کی فراہمی کیلئے بڑے جنریٹر ز علاقے میں پہنچائیں جارہے ہیں۔
فوجی ترجمان کا مزید کہنا ہے کہ مینگورہ کی عوام کیلئے تمام ترسہولیات کی بحالی میں دوہفتوں کا وقت درکار ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ میجر جنرل اطہر عباس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مینگورہ شہر کا زیادہ تر حصہ عسکریت پسندوں سے صاف کردیا گیا ہے تاہم مینگورہ کے نواحی علاقوں سمیت بعض مقامات پر فوج کو اُن کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
فوجی ترجمان نے بریفنگ میں یہ بھی بتایا کہ عسکریت پسندوں کے گڑھ پیوچار اوردیگر ملاحقہ علاقوں سے بڑے پیمانے پر اسلحہ اور بارود برآمد کرلیاہے۔ انکا کہناہے کہ مینگورہ سمیت خوازہ خیلہ سے ہوتے ہوئے بحرین اور کالام تک جہاں جہاں سے بھی فوج گذری ہے ان علاقوں کو کلیئر کردیا گیا ہے۔ اس وجہ سے ہفتہ کے روز کئی ٹن سامان وہاں پہنچانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے۔ اِس کے علاوہ ہفتہ کے ہی دِن 40 ٹرک اشیائےخوردونوش لے کر مٹہ،خوازہ خیلہ اور شمالی علاقوں کیلئے روانہ کئے گئے۔ اِن علاقوں میں جاری آپریشن کے دوران سامان پہنچانا انتہائی مشکل تھا۔ وادئ سوات کےایک اورعلاقہ کبل میں بھی ابھی تک فوج نہیں پہنچی جِس کی وجہ سے ان علاقوں کے لوگوں تک زندگی کے لئے درکار ضروری سامان کی رسائی ابھی تک ممکن نہیں اور اُنہیں تکالیف کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے۔
میجر جنرل اطہر عباس نے روزانہ کی بریفنگ میں یہ بھی بتایا کہ اس وقت تک بارہ سو سے زائد عسکریت پسند ہلاک جبکہ 79گرفتار کئے جا چکے ہیں۔
مینگورہ کے بعد تحصیل چارباغ میں کرفیو نافذ کرکے لوگوں کوعلاقہ خالی کرنے کی ہدایت کی گئی۔ چارباغ کے ہزاروں لوگ خوازہ خیلہ کے راستے محفوظ مقامات پرمنتقل ہورہے ہیں۔ مینگورہ میں اب بھی لاکھوں لو گ محصور ہیں امکان ہے کہ فوجی کنٹرول میں آنے کے بعد شہر میں کرفیو اوقات میں نرمی کی جائے گی جس سے مزید لوگ نقل مکانی کرینگے جبکہ ملاکنڈ کے دیگر علاقوں سے نقل مکانی کاسلسلہ بدستور جاری ہے۔
سرحدحکومت کا کہناہے کہ نقل مکانی کرنیوالوں کی تعداد 34لاکھ سے زیادہ ہے جبکہ اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق اب تک 25 لاکھ 53 ہزار سے زیادہ لوگوں کی رجسٹریشن کی جاچکی ہے۔ ابھی بھی ساڑھے تین لاکھ رجسٹریشن کے منتظر ہیں۔ تقریبا ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری فوجی آپریشن کے ذریعے بونیر سمیت دیر اور باجوڑ کے متعدد علاقوں کو کلیئر قراردے کر متاثرین کووہاں جانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
باجوڑ ایجنسی سے ساڑھے تین لاکھ سے زیادہ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے تاہم غیر یقینی صورتحال اورتجارتی مراکز ، گھر ، سکول اور ہسپتالوں کی تباہی سمیت بنیادی ضروریات کی فقدان کی وجہ سے کوئی سردست واپس جانے کیلئے تیار نہیں۔
جلوزئی کیمپ میں مقیم باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سلیمان فضل اللہ ، عبدالکریم کہتے ہیں کہ باجوڑ میں ان کے علاقے میں کچھ باقی نہیں بچا اگرہمارا گھر بھی ہوتا توہم ضرور جاتے کیونکہ یہاں شدید گرمی اور بنیادی اشیائے ضرورت کا فقدان ہے حکومت جس امداد کے دعوے کررہی ہے وہ ہمیں دستیاب نہیں ہے۔ متاثرین کوواپسی پرجو رقم دینےکا وعدہ کیاگیا ہے اُس پر بھی عمل درامد دکھائی نہیں دے رہا۔ جو لوگ واپس گئے ہیں ان کو بھی بحالی کیلئے کچھ نہیں دیاگیا۔ ایسے میں جو لوگ وہاں گئے ہیں وہ بھی رابطے کرکے ہمیں نہ آنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ باجوڑ کے متاثرین کا خیال ہے کہ گھر بار نہیں تو کھلے آسمان میں بچوں کو بمباری کے سامنے لے کر جانے میں کوئی دانش پوشیدہ نہیں ہے۔ ویسے بھی وہاں ابھی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔
اِن متاثرین کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ مہاجرت پر مجبور افراد کیلئے آنے والی امداد ان تک پہنچانے کو یقینی بنائے۔ بجلی ، پانی، گیس اور دیگر سہولیات فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑھ کر وہاں کے لوگوں کی جان ومال کاتحفظ فراہم کیاجائے۔
مینگورہ سمیت ضلع دیر میں بھی سیکورٹی فورسز کا عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن جاری ہے اس علاقے میں کاروائی میں سیکورٹی فورسز نے دس عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیاہے۔ سیکورٹی فورسز کے کمانڈر کرنل ہمایوں کا کہناہے کہ دیر میں شدت پسندوں کے خلاف آپریشن کے دوران پانچ سو عسکریت پسندوں کو ہلاک کیاگیا ہے، جبکہ آپریشن میں سترہ سیکورٹی اہلکار ہلاک اور چالیس زخمی ہوئے ہیں لوئردیر میں عسکریت پسندوں کی کارروائیاں میں ابھی کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔ لوئردیر میں یونین کونسل کے منتخب ناظم گل حاجی خان اور تحریک نفاذ شریعت کے قاضی حبیب الرحمن کو نامعلوم افراد نے اغواءکرنے کے بعد قتل کردیاہے۔ تاہم ابھی تک کسی گروپ نے انکے قتل کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔