1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپال: مُردے جلانے کے لیے بجلی سے چلنے والی پہلی برقی بھٹی

امجد علی24 جنوری 2016

نیپال میں ہندو مَت اور بدھ مَت کے پیروکار اپنے مُردوں کو زیادہ تر جلاتے ہیں۔ ان آخری رسومات کو سستا اور ماحول دوست بنانے کے لیے نیپال کے دارالحکومت کھمنڈو میں بجلی سے چلنے والی پہلی بھٹی لگا دی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Hj5q
Pashupatinath Tempel in Nepal
نیپال کے دارالحکومت کھمنڈو میں واقع پشوپتی ناتھ مندر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہےتصویر: Getty Images/AFP

جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق ایسی پہلی بھٹی نے اتوار چوبیس جنوری سے کام شروع کر دیا ہے۔ ڈی پی اے سے باتیں کرتے ہوئے پشوپتی ایریا ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ممبر سیکرٹری گووندا ٹنڈن نے بتایا:’’اس بھٹی نے بڑے صحیح وقت پر کام کرنا شروع کیا ہے کیونکہ ہم اپنے مُردوں کو جلانے کے لیے بہت زیادہ لکڑی استعمال کرتے رہے ہیں، جس کے جنگلات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں اور ساتھ ساتھ شہروں میں آلودگی بھی بڑھی ہے۔‘‘

ٹنڈن نے بتایا کہ اس بھٹی کی وجہ سے نیپالی خاندانوں کا کافی پیسہ بچے گا۔ اُن کا کہنا تھا کہ جہاں روایتی طریقے سے آخری رسومات ادا کرنے کے لیے نیپالیوں کو تقریباً آٹھ ہزارروپے کی لکڑی خریدنا پڑتی ہے، وہاں اس نئے طریقے سے مُردے جلانے پر فی مُردہ تین ہزار روپے (تیس ڈالر) لاگت آئے گی۔

اس کے ساتھ ساتھ جدید طریقے سے مُردے جلانے پر وقت بھی کم صرف ہو گا۔ ٹنڈن کے مطابق لکڑی سے جلائی گئی آگ میں آخری رسومات میں چار چار گھنٹے بھی لگ جاتے ہیں جبکہ اس نئی برقی بھٹی کی مدد سے یہ کام پنتالیس منٹ میں ہو جایا کرے گا۔ اتوار کو اس بھٹی میں تین مُردوں کو جلایا جانا تھا۔

یہ برقی بھٹی کھٹمنڈو کے پشوپتی ناتھ مندر کے علاقے میں دریائے باگمتی کے کنارے بنائی گئی ہے۔ اسی جگہ پر لوگ گزشتہ کئی عشروں سے قائم شمشان گھاٹ پر لکڑی جلاتے ہوئے اپنے مُردوں کی آخری رسومات ادا کرتے رہے ہیں۔

یہ ہندو مندر یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے اور بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی کے سبب خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ اس مندر کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

Nepal Erdbeben Kathmandu Feuerbestattung
کھٹمنڈو میں اسی جگہ پر لوگ گزشتہ کئی عشروں سے قائم شمشان گھاٹ پر لکڑی جلاتے ہوئے اپنے مُردوں کی آخری رسومات ادا کرتے رہے ہیںتصویر: Reuters/A. Abidi

اگرچہ برقی بھٹی نے کام کرنا شروع کر دیا ہے لیکن اس کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہ مُردے جلانے کے روایتی طریقے کی جگہ لے گی۔ ایک ہندو پنڈت گووندا چالیسے نے، جو پشوپتی علاقے میں رہتے بھ یہیں، بتایا:’’بہت سے مذہبی لوگ چاہیں گے کہ اُن کی آخری رسومات میں لکڑی کی آگ استعمال کی جائے، نہ کہ اُن کا جسدِ خاکی بجلی سے چلنے والی بھٹی میں جلایا جائے۔ کتابوں میں لکھا ہے کہ مُردے کا جلایا جانا ایک ایسی رسم ہے، جس سے انسان کو آسمانوں میں ابدی زندگی ملتی ہے۔ اگرچہ اس بھٹی کے ذریعے آخری رسومات کی ادایگی زیادہ آسان ہے لیکن لوگوں کی طرف سے اسے اپنانے میں کچھ وقت لگے گا۔‘‘

بجلی کی ترسیل منقطع ہو جانے کی صورت میں اس برقی بھٹی کے لیے جنریٹرز کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔ نیپال کو ایندھن کے شدید بحران کا سامنا ہے اور وہاں روزانہ چَودہ چَودہ گھنٹے کے لیے بجلی چلی جاتی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید