1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیپالی وزیر اعظم چین کے دورے پر

27 دسمبر 2009

جنوبی ایشیاء کے ملکوں کی مجموعی سیاسی اور اقتصادی صورت حال کے تناظر میں نیپالی وزیر اعظم کا دورہٴ چین خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ خطے میں نیپال اپنی سٹرٹیجک پوزیشن کے اعتبار سے خاصی اہم ریاست ہے۔

https://p.dw.com/p/LEAf
نیپالی وزیر اعظم درمیان میںتصویر: AP

کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع ریاست نیپال کے وزیر اعظم مادھو کمار نیپال نے ہفتہ کے روز سے اپنے ملک کے شمال میں واقع بڑے اقتصادی ملک چین کا دورہ شروع کردیا ہے۔ اُن کا دورہ پانچ دنوں کا ہے۔ وہ اپنے دورے کے دوران چینی وزیر اعظم وین جیا باؤ سے بھی ملاقات کریں گے۔ اُن کے دورے کے حوالے سے چینی وزارت خارجہ نےبھی محتاط انداز اپنا رکھا ہے۔ وزیر اعظم نیپال کا دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب اُن کے ملک میں ماؤ نواز اپوزیشن جماعت اور حکومت کے درمیان تعلقات کشیدہ صورت اختیار کئے ہوئے ہیں اور مجموعی سیاسی صورت حال کو اطمینان بخش قرار دینا مشکل ہے۔

چین کے دورے پر جانے والے وزیر اعظم کے ہمراہ اکیس رکنی وفد ہے جس میں نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ سجاتا کوئرالا کے علاوہ وزیر خزانہ اور وزیر توانائی بھی شامل ہیں۔ سن دو ہزار چھ میں نیپال میں جمہوریت کے باقاعدہ قیام کے بعد نیپال کے سرکاری میڈیا نے موجودہ وزیر اعظم کے اِس دورے کو چین کا پہلا سرکاری دورہ قرار دیا ہے۔ سن دو ہزار آٹھ میں نیپال کے پہلے منتخب وزیر اعظم کمل ڈہل پراچند نے بیجنگ منعقدہ گرمائی اولمپک مقابلوں کی اختتامی تقریبات میں البتہ شرکت کی تھی۔ نیپال کا سرکاری میڈیا خصوصیت سے پراچند کے دورے کی اہمیت کو کم کرنے میں مصروف ہے اور یہ ظاہر کر رہا ہے کہ موجودہ وزیر اعظم کی سیاسی جماعت اور چین کی حکمران کمیونسٹ پارٹی کے درمیان پائے جانے والے تعلقات گرم جوش جذبات سے بھرے ہیں۔

Demonstration in Nepal Zusammenstoss mit der Polizei
نیپالی دارالحکومت کھٹمنڈو میں مظاہروں کا منظرتصویر: AP

موجودہ نیپالی وزیر اعظم کے دورہ چین کے ایجنڈے کو ابھی تک عام نہیں کیا گیا ہے۔ البتہ وفد میں شامل وزراء کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک چین کے ساتھ شروع کئے جانے والے پانی سے توانائی حاصل کرنےکے منصوبوں کے ساتھ ساتھ بنیادی ڈھانچے کوجدید خطوط پر استوار کرنے کے لئے تکنیکی مدد کا طلب گار ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ نیپال میں سیاحت کے فروغ کے لئے مختلف منصوبوں کے لئے بھی چینی مہارت کے حصول کی درخواست کی جا سکتی ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم مادھو کمار نیپال نے بیجنگ روانگی سے قبل میڈیا کو بتایا کہ یہ خیر سگالی کا دورہ ہے اور بنیادی مقصد دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات کو مزید استحکام دینا ہے۔

تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ نیپالی وزیر اعظم کے دورہ چین کا وقت انتہائی اہم ہے۔ اُن کے ملک کے اندر ماؤ نواز اپوزیشن جماعت نے دسمبر میں تین روزہ عام ہڑتال پر عمل کیا دوسری جانب وزیر اعظم بین الاقوامی کمیونٹی کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اُن کے ملک کے اندر سیاسی بےچینی نہیں ہے اور امن مذاکرات کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ زمینی حقائق البتہ مختلف ہیں کیونکہ ماؤ نواز رواں سال چوبیس جنوری سے موجودہ حکومت کے خلاف مسلسل صدائے احتجاج بلند کئے ہوئے ہیں اور حکومت کے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چین اور نیپال کے تعلقات میں اگر وسعت پیدا ہوتی ہے تو یہ بھارت کے لئے خاصی اہم ہوگی۔

Nepals Premierminister Pushpa Kamal Dahal
نیپال کے سابق وزیر اعظم پشپ کمار ڈہل: فائل فوٹوتصویر: AP


مادھو کمار نیپال کے دورہ چین کے نتائج تو بعد میں معلوم ہوں گے لیکن واپسی پر اُن کو ماؤ نواز اپوزیشن جماعت کی تنقید کا سامنا ہو گا۔ ماؤ نواز وں نے نیپالی وزیر اعظم کے دورہٴ بھارت کو بھی کلی طور پر ناکام قرار دیا تھا۔ اپوزیشن لیڈر پراچند پہلے ہی وزیر اعظم کویورپی ملک ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں منعقد کی جانے والی ماحولیاتی کانفرنس میں اپنے ملک کی نمائندگی نہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ پراچند کے مطابق وزیر اعظم ملکی مفادات کے تحفظ میں ناکام ہو چکے ہیں اور ایسے میں بھارت اور چین کیونکر اُن کی کمزور پالیسیوں پر حمایت کریں گے۔

یہ امریقینی ہے کہ نیپالی وزیر اعظم اپنے میزبان ملک کی لیڈر شپ کو اِس بات کا یقین دلانے کی کوشش کریں گے کہ نیپال کی سرزمین کو چین کے تبتی مہاجرین احتجاج کے لئے بالکل استعمال نہیں کریں گے۔ اِس کے علاوہ اُن کی حکومت دلائی لامہ کے نمائندے کے لئے نیپال میں کوئی دفتر کھولنے کی اجازت بھی نہیں دے گی۔ چین بھی نیپالی وزیر اعظم پر ایک بار پھر واضح کر سکتا ہے کہ تبت اور تائیوان چین کے یقینی حصے ہیں اور نیپال میں مقیم بیس ہزار تبتی مہاجرین کو مناسب انداز میں کنٹرول کیا جائے۔

رپورٹ: عابد حسین

ادارت: شادی خان