1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کے وزرائے دفاع کا اجلاس، آج سے استنبول میں شروع

4 فروری 2010

افغانستان میں مزید کتنے غیرملکی فوجیوں اور افغان پولیس اور فوج کے لئے کتنے تربیت کاروں کی ضرورت ہو گی اور طالبان سے متعلق کیا حکمت عملی اختیار کی جائے؟

https://p.dw.com/p/LrWJ
تصویر: picture-alliance/ dpa

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے افغانستان مشن کی کامیابی کا انحصار، جنگ سے تباہ حال ملک افغانستان کی تعمیرنو اور وہاں کے اُن سیکیورٹی اہلکاروں کی تربیت پر ہی ہے، جن کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ استنبول میں جمعے تک جاری اس کانفرنس میں روس کے ساتھ مغربی دفاعی اتحاد کے تعلقات اور کوسووو کی صورتحال پر بھی غورو خوض کیا جارہا ہے۔

مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راس موسن نے اپنے نئے سال کے خطاب میں خوش اْمیدی کا تاثر دینے کی کوشش کی تھی۔ انہوں نے کہا تھا ’’سن دوہزار دس ایک فیصلہ کن سال ہوگا۔ تاہم ہمیں بہت سے چیلنجز اور بُرے وقتوں کا بھی سامنا ہو گا۔ تاہم مجھے اس امرکا یقین ہے کہ حکمت عملی، وسائل اور یکجہتی کی مدد سے ہم سال رواں میں پیش رفت کر سکیں گے‘۔

چیلینج سے راسموسن کی مراد نیٹو کا افغانستان مشن تھا اور یہی وہ اہم ترین موضوع ہے، جس پر مغربی دفاعی اتحاد میں شامل ممالک کے وزرائے دفاع استنبول میں آج سے کل تک بحث کریں گے۔ تاہم افغانستان میں سلامتی کی صورتحال بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے، افغانستان مشن کو نیٹو کے بہت سے رکن ممالک میں شدید تنقید کا سامنا ہے اور یہ موضوع نزاع کا باعث بنا ہوا ہے۔ مثلاً حال ہی میں لندن میں منعقد ہونے والی افغانستان کانفرنس میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے واضح الفاظ میں افغانستان سے فوجی انخلاء کے منصوبے کی وضاحت پیش کرتے ہوا کہا تھا’ ہم افغانستان میں ہمیشہ کے لئے نہیں رہنا چاہتے ہیں‘۔

Rasmussen in Ankara
نیٹو کے سیکریٹری جنرل آندرس فوگ راس موسنتصویر: AP

ویسٹر ویلے کے مطابق جرمنی چاہتا ہے کہ سن 2014 ء تک ملکی سلامتی کی ذمہ داری افغان قیادت کو سونپی جا سکے۔

اس سے قبل جرمنی اور کئی دیگر ممالک نے افغانستان میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا فیصلہ بھی کیا۔ تاہم نیٹو اتحاد اس وقت افغانستان کی تعمیر نو اور وہاں کے سلامتی اداروں کے اہلکاروں کی تربیت کو بہت زیادہ اہمیت دے رہا ہے۔ ادھر لندن کانفرنس میں افغان صدر حامد کرزائی نے دہشت گردی کو ترک کرنے والے طالبان عناصر کو معاشرے کے مرکزی دھارے میں شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ کرزائی نے کہا تھا’ ہمیں اپنے تمام ہم وطنوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا ہو گا، خاص طور سے ان کی طرف، جن کا دہشت گرد تنظیم القاعدہ سے کوئی تعلق نہیں ہے اور جو افغانستان کے آئین کا احترام کرتے ہیں‘۔

افغانستان میں مصروف عمل نیٹو کے متعدد فوجی، ہندو کش میں تعینات آئی سیف کے دستوں کے کمانڈر جنرل اسٹینلی میک کرسٹل کی افغانستان جنگ جیتنے سے متعلق خوش اْمیدی کے بارے میں شکوک وشبہات رکھتے ہیں۔ خفیہ طور پر نیٹو کا ہر ترجمان اس امر پر یقین نہیں رکھتا کہ طالبان کے خلاف جنگ واقعی جیتی جا سکتی ہے۔ تاہم کوسووو کا معاملہ ذرا مختلف ہے۔ وہاں سلامتی کی صورتحال اس حد تک مستحکم ہو چکی ہے کہ نیٹو کے قائدین وہاں اپنے دستوں کی تعداد میں 3000 کی کمی کرنا چاہتے ہیں، جس کے بعد کوسووو میں ان کی تعداد 10 ہزار رہ جائے گی۔ استنبول کانفرنس کا ایک اور اہم موضوع روس کے ساتھ نیٹو کے تعلقات ہو گا، تاہم راسموسن عالمی سطح پر پائے جانے والے سلامتی کے مسائل کے حل کے لئے تمام نیٹو ممبران سے مفاہمانہ طرز عمل کے خواہاں ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ اختلاف رائے کے باوجود قفقاذ کے علاقے میں اشتراک عمل اور باہمی دوستی کا مظاہرہ کیا جائے۔

رپورٹ: کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی