1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو کا سابقہ فوجی اڈہ منشیات کے عادی افراد کے علاج کا مرکز

کشور مصطفیٰ9 جنوری 2016

افغان حکام نے ایک ترک شُدہ نیٹو فوجی اڈے میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کا ایک نیا مرکز قائم کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1Haex
تصویر: Getty Images/AFP/M.Hossaini

افغان حکومت کی طرف سے ملک میں منشیات کے ناجائز استعمال کے سبب پائے جانے والے دیرینہ مسائل کے حل کی یہ ایک نئی کوشش ہے۔ افغانستان دنیا میں اسمگل کی جانے والی افیون کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ گزشتہ سال اس ملک میں افیون کی پیداوار میں 48 فیصد کمی کے باوجود 3,300 ٹن افیون پیدا ہوئی۔

ایک ایسے ملک میں جو عشروں سے جنگ و جارحیت کا شکار رہا ہے اور ہنوز بدامنی اور مسلح جھڑپوں کی لپیٹ میں ہے اور جس کا بنیادی معاشی ڈھانچہ تباہ ہو چُکا ہے، منشیات بہت سے نوجوانوں کو عارضی راحت بخشنے کا سبب ہوتی ہیں۔ افغان نوجوانوں میں ایک طرف تو بے روزگاری اور معاشرتی پسماندگی شدید مایوسی کا سبب بنی ہوئی ہے تو دوسری جانب انہیں اپنا مستقبل ماضی کی طرح اب بھی تاریک نظر آ رہا ہے۔

Bildergalerie Entzugskliniken Internet-, Spielsucht
افغانستان میں میاں علی بابا مزار میں قائم منشیات کے عادی افراد کا ایک مرکز جس میں 36 سالہ علی کو زنجیروں سے جکڑ کر رکھا گیا ہےتصویر: picture alliance/AP Photo/R.Gul

2003ء میں کابل کے کنارے پر نیٹو کا ایک تربیتی کیمپ ’فؤنکس‘ امریکی فوج نے قائم کیا تھا۔ اسے اب منشیات کے عادی بے گھر افراد کا مرکز بنا دیا گیا ہے۔ افغانستان کے پبلک ہیلتھ منسٹر یا صحت عامہ کے امور کے وزیر فیروز الدین فیروز کے مطابق اس سینٹر میں بے سرو سامان منشیات کے عادی افراد کو نہ صرف سر چھپانے کی جگہ فراہم کی جائے گی بلکہ انہیں کھانا اور طبی توجہ، جس میں اُن کا علاج معالجہ شامل ہے ۔ افغان وزیر کہتے ہیں، ’’ہم ان کی باقاعدہ شیو کریں گے یعنی ان کی داڑھی بنائی جائے گی، غُسل کی سہولیات فراہم کی جائیں گی اور انہیں گرم لباس اور علاج کی سہولت بھی فراہم کی جائے گی۔‘‘

فیروز الدین فیروز نے اخباری نمائندوں کو اس مرکز کا دورہ کراتے ہوئے اس کی تمام تر تفصیلات سے آگاہ کیا۔ اس سینٹر میں منشیات کے عادی بے گھر افراد کے لیے 45 روزہ کورس کا انتظام کیا گیا ہے، جس میں اُن کا علاج معالجہ اور اُن کی جسمانی اور ذہنی تربیت بھی شامل ہو گی۔ افغان وزیر کے بقول، ’’ہم انہیں معاشرے کے نارمل شہریوں کی طرح اپنی زندگیاں شروع کرنے کے قابل بنائیں گے۔‘‘

یہ پیشقدمی افغان حکومت اور اُس کے بین الاقوامی پارٹنرز کی طرف سے انسداد منشیات کی طویل اور سلسلہ وار کوششوں میں تازہ ترین کوشش ہے تاہم منشیات کی لعنت جتنے بڑے پیمانے پر افغان معاشرے کا روگ بنی ہوئی ہے اُس کے مقابلے میں اس پیشقدمی کو ایک چھوٹا سا قدم قرار دیا جا رہا ہے اور اس کے بارے میں شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

Afghanistan Kabul Berufstraining für ehemalige Drogensüchtige
منشیات کے عادی افراد کے لیے کابل میں قائم ایک پیشہ وارانہ تربیتی مرکزتصویر: DW

پولیس مسلسل منشیات کے عادی ایسے افراد کا پیچھا کرتی رہتی ہے، جو کابل کے مغربی حصے میں پُلِ سوختہ کے نیچے پڑاؤ ڈالے دکھائی دیتے ہیں تاہم اب تک تمام حکومتیں اس سنگین مسئلے کو حل کرنے میں نا کام اور بے اختیار ثابت ہوئی ہیں۔

گزشتہ برس مئی میں امریکا کی فنڈنگ سے تیار کردہ ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ قریب 30 ملین کی آبادی والے اس ملک میں 1.9 تا 2.4 ملین افغان بالغ افراد منشیات کے عادی ہو سکتے ہیں اور افغانستان کے 30 فیصد گھروں میں منشیات لی لت پائی جاتی ہے۔

اتنی بڑی تعداد میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کے لیے اس ملک میں محض 123 مراکز قائم ہیں۔ ان مراکز میں افیون اور ہیروئن کے عادی محض 10 فیصد افراد کو علاج فراہم کیا جا سکتا ہے۔ ایک اور مسسلہ یہ ہے کہ ان مراکز میں زیر علاج رہنے والے اکثر مریض باہر آ کردوبارہ منشیات کی لعنت میں گرفتار ہو جاتے ہیں۔