1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو سربراہی کانفرنس کے نتائج، ایک تبصرہ

گراہیم لوکاس / مقبول ملک6 اپریل 2009

صدر اوباما نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کی کانفرنس کو اپنی اس سوچ کے اظہار کے لئے استعمال کیا کہ امریکی صدر کے طور پر ان کی ترجیحات کیا ہیں۔ ایک ذہین سیاستدان کے طور پر وہ جانتے ہیں کہ عام لوگوں تک کس طرح پہنچا جاسکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/HQOc
دائیں سے بائیں: نیٹو سیکریٹری جنرل شیفر، ان کے نومنتخب جانشین راسموسن اور فرانسیسی صدر نکولا سارکوزیتصویر: AP

وہ نہ صرف دوسروں کی بات بڑی توجہ سے سنتے ہیں بلکہ ان کے خیالات پر عمل درآمد کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ جرمنی جنوبی افغانستان میں اپنے فوجی تعینات کرنے سے انکار کرتا ہے جہاں شدید جھڑپیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ پھر بھی صدر اوباما نے اس وجہ سے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے موقف پر کوئی تنقید کرنے کی بجائے ان کی تعریف کی۔ لیکن صدر اوباما نے ایسا کیوں کیا؟ نیٹو کے قیام کی 60 ویں سالگرہ کے موقع پر ہونے والی اس اتحاد کی سربراہی کانفرنس کے نتائج پر تبصرہ کرتے ہوئے شٹراس برگ سے ڈوئچے ویلے کے شعبہ جنوبی ایشیا کے سربراہ گراہیم لوکاس لکھتے ہیں:



نیٹو سربراہان کے لئے صدر اوباما کا پیغام بڑا سادہ سا تھا۔ امریکہ طالبان اور القاعدہ کے خاتمے کا تہیہ کئے ہوئے ہے کیونکہ وہ مغربی معاشروں اور ان کی اقدار کے لئے شدید خطرہ ہیں۔ باراک اوباما کا افغانستان میں مزید 21 ہزار امریکی فوجی بھیجنے کا فیصلہ یہ واضح کرتا ہے کہ وہ جمہوریت، آزادی اظہار اور شخصی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کا ارادہ ہے کہ اسی سال افغانستان میں امریکی فوجیوں کی مجموعی تعداد 80 ہزار تک کردی جائے۔ امریکہ نے نیٹو سربراہی کانفرنس سے کچھ عرصہ قبل ہی افغانستان اور پاکستان سے متعلق اپنی نئی پالیسی کا اعلان بھی کیا تھا اور اوباما چاہتے ہیں کہ شمال مغربی پاکستان میں طالبان سے بھی موثر طور پر نمٹا جائے، چاہے اس کے لئے پاکستانی سرزمین پر کوئی امریکی فوجی موجود نہ بھی ہوں۔

شمال مغربی پاکستان میں طالبان کو امریکہ کے مسلسل بڑھتے ہوئے میزائیل حملوں کا سامنا ہے اور ان کے اہم رہنماؤں کی گرفتاری میں مدد کے لئے مالی انعامات کا اعلان بھی کیا جاچکا ہے۔ امریکی انتظامیہ اعتدال پسند طالبان کے ساتھ مذاکرات کے اشارے بھی دے چکی ہے لیکن ایسا محض اسی صورت میں کیا جائے گا جب خطے میں امریکہ کی پوزیشن موجودہ سے بھی مضبوط ہو گی اور طالبان کے خلاف اتحادی فوجی طاقت میں مزید اضافہ کیا جا چکا ہوگا۔ پھر بھی لازمی نہیں کہ ایسے مذاکرات واقعی عمل میں آئیں۔

Nato-Gipfel in Baden-Baden
شٹراس برگ میں نیٹو کانفرنس کے دوران ورکنگ ڈنر کے موقع پر لی گئی تصویرتصویر: AP

نیٹو سربراہی کانفرنس نے ثابت کردیا کہ باراک اوباما اپنے پیش رو جارج ڈبلیو بش سے کہاں کہاں مختلف سوچ کے حامل ہیں۔ اوباما مسئلے کے صرف فوجی حل سے دور تک بھی سوچتے ہیں ۔ انہیں عام شہریوں کی بڑی تعداد میں ہلاکتوں پر تشویش ہے۔ وہ شراکت داری کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے ایسی بین الاقوامی حکمت عملی کے خواہش مند ہیں جو افغانستان اور شمال مغربی پاکستان میں سول سوسائٹی کی تعمیر نو میں اس طرح مدد دے سکے کہ وہاں شدید غربت کے باوجود طالبان کو تقویت نہ ملے۔ باراک اوباما سماجی ترقی کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے کابل حکومت کے نئی قانون سازی سے متعلق ان فیصلوں کی مذمت کی جن کے باعث افغانستان میں اقلیتی شیعہ خواتین کی حالت بہت متاثر ہو گی۔ یورپی ملکوں کو اوباما کا یہ موقف بھی پسند آیا۔

برطانیہ، سپین، فرانس جرمنی اور چند دوسرے ملکوں نے اوباما کی نئی حکمت عملی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ وہ افغانستان میں آئندہ صدارتی انتخابات کے محفوظ اور کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے وہاں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کچھ اضافہ کردیں گے۔ جرمن چانسلر میرکل کہتی ہیں کہ شمالی افغانستان میں ساڑھے تین ہزار سے بھی زائد جرمن فوجی تو پہلے ہی سے موجود ہیں۔ لیکن چند مہینوں میں یہ تعداد شاید ناکافی محسوس ہونے لگے گی۔ اس سال ستمبر میں جرمنی میں عام انتخابات کے بعد برلن حکومت کو اپنے نقطہ نظر پر دوبارہ غور کرنا پڑ سکتا ہے۔

باراک اوباما نے واضح کردیا ہے کہ وہ افغانستان اور پاکستان سے متعلق نئی امریکی پالیسی میں یورپی ملکوں کی عملی مدد چاہتے ہیں کیونکہ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد یہ اور ایسے ہی دیگر فرائض وہ ذمہ داریاں ہیں جو نیٹو میں امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں پر عائد ہوتی ہیں۔ لہٰذا باراک اوباما کا ساتھی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہر کسی کی بات سنیں گے لیکن یہ پارٹنرشپ مہنگی بھی ہوگی۔ کتنی مہنگی، یورپی رہنماؤں کو یہ اندازہ افغستان کے لئے امداد دہندہ ملکوں کی اگلی کانفرنسوں میں ہو جائے گا۔