1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیویارک میں امریکہ - آسیان سربراہ کانفرنس

24 ستمبر 2010

اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر امریکی صدر باراک اوباما کی میزبانی میں امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان کی دوسری سربراہ کانفرنس منعقد ہو رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/PLbS
2009ء: امریکہ آسیان ملاقاتتصویر: AP

جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتی ہوئی امریکی دلچسپی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ابھی ایک روز پہلے اوباما نے نومبر میں انڈونیشیا کا دورہ کرنے کا اعلان کیا تھا۔ یہ دورہ اِس سے پہلے دو مرتبہ ملتوی کیا جا چکا ہے۔ امریکہ اور آسیان کے درمیان نیویارک منعقدہ سربراہ کانفرنس میں مختلف علاقوں پر ملکیت سے متعلق پائے جانے والے اُن تنازعات کو مرکزی اہمیت حاصل رہے گی، جن کا تعلق چین اور اُس کے ایشیائی ہمسایہ ملکوں سے ہے۔

بحیرہء جنوبی چین، پاراسیل اور سپریٹلی جزائر

چین پورے بحیرہء جنوبی چین پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے، جس میں زیادہ تر بحری جہازوں کے راستے میں آنے والے پاراسیل اور سپریٹلی سلسلہء جزائر کے سینکڑوں چھوٹے چھوٹے جزیرے اور چٹانیں بھی شامل ہیں۔ ویت نام، تائیوان، ملائیشیا، برونائی اور فلپائن بھی اِن تمام یا اِن میں سے کچھ جزائر پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اگرچہ خود ان جزائر کا رقبہ چند مربع کلومیٹر سے زیادہ نہیں ہے لیکن اہمیت سمندر کی تہہ میں موجود تیل اور گیس کے ذخائر کی ہے۔ اگرچہ یہاں وہاں خطے کے کچھ دیگر ممالک بھی نظر آتے ہیں لیکن سب سے زیادہ نمایاں موجودگی چین کی ہے اور امریکہ کو خدشہ ہے کہ یہ چیز کبھی نہ کبھی بحری جہازوں کی آزادانہ آمدورفت میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔

Japan China Schiffskollision Kapitän
اِس سال آٹھ ستمبر کی اس تصویر میں جاپانی ساحلی گارڈز چینی ماہی گیر کشتی کے اکتالیس سالہ کپتان کو حراست میں لے رہے ہیں، جسے اب دو ہفتوں بعد رہا کر دیا گیا ہےتصویر: AP

1998ء میں ویت نامی بحری اَفواج کی چین کے ساتھ ایک مختصر سی جھڑپ ہوئی تھی، جس میں پچاس ویت نامی سیلرز مارے گئے تھے۔ اِس بحری تنازعے پر ویت نام میں چین کے خلاف 2007ء میں خلاف توقع بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے تھے۔

نو عدد سپریٹلی جزائر پر قبضہ رکھنے والا ملک فلپائن بھی چین کے ملکیتی دعووں کی زیادہ سے زیادہ گرمی محسوس کر رہا ہے۔ فلپائن نے آسیان کی سطح پر یہ موضوع اٹھایا ہے تاکہ تمام جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اِس موضوع پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کر سکیں۔

سینکاکو/ دیاؤیُو جزائر اور اوکینوٹوری شیما

سینکاکو جزائر کو چین میں دیاؤیُو جزائر کہا جاتا ہے ا ور یہ بحیرہء مشرقی چین میں واقع ہیں۔ یہیں اِس ماہ وہ واقعہ پیش آیا تھا، جس میں ایک چینی ماہی گیر کشتی جاپانی ساحلی محافظوں کے دو بحری جہازوں سے ٹکرا گئی تھی اور چین اور جاپان کے درمیان ایک بڑے تنازعے کا باعث بنی تھی۔ تازہ خبروں کے مطابق جاپان نے بالآخر اِس ماہی گیر کشتی کے کپتان کو بھی رہا کر دیا ہے۔

Grenze China Indien Grenzpass
1962ء کی چین بھارت جنگ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان 2006ء میں ایک بار پھر ایک سرحدی راستہ کھولا گیا تھاتصویر: picture-alliance/ dpa

جہاں تک ٹوکیو سے سترہ سو کلومیٹر جنوب کی طرف واقع اوکینوٹوری شیما نامی جزیرے پر جاپانی ملکیت کا معاملہ ہے، چین اُسے تسلیم کرتا ہے تاہم بحیرہء مشرقی چین میں اور بہت سے شعبوں میں جاپان اور چین کے مفادات ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔

چین - بھارت سرحد

چین اور بھارت کے درمیان تین الگ الگ تنازعات ہیں، جن میں ہمالیائی سرحد کے مغرب کی طرف واقع اَقصائے چین گلیشئرز بھی شامل ہیں، جہاں 38 ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ چین کے قبضے میں ہے۔ مشرق کی جانب چین بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے بھی تقریباً 90 ہزار مربع کلومیٹر علاقے پر اپنی ملکیت کے دعوے رکھتا ہے۔ اِس کے علاوہ بھارت کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت غیر قانونی طور پر شمالی کشمیر کے تقریباً 5,180 مربع کلومیٹر علاقے پر قابض ہے، جو پاکستان نے 1963ء میں پاک چین سرحدی سمجھوتے کے تحت چین کے حوالے کیا تھا۔

رپورٹ: امجد علی / خبر رساں ادارے

ادارت:عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں