نیوزی لینڈ کے اسکولوں میں مزاق اور تشددکا نشانہ بنائے جانے کی روک تھام کا حکم
7 اپریل 2011نیوزی لینڈ کے ایک اسکول کی 15 سالہ لڑکی کو اس کے کلاس فیلوز کی جانب سے بے رحمی سے مارنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ دیا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو کو ایک طالبعلم نے اپنے موبائل فون کے کیمرے سے فلمبند کر لیا جسے بعد میں ٹی وی پر بھی نشر کیا گیا۔
اس واقعہ کو ملکی کابینہ کے ایک اجلاس میں بحث کا مضوع بھی بنایا گیا۔ اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے جان کی کا کہنا تھا کہ وہ اسکول جانے والے ان بچوں کے لیے فکر مند ہیں جو دوسرے بچوں سے خوفزدہ ہیں۔ ڈرانے دھمکانے کے رویے کو کس طرح سے ختم کیا جا سکتا ہے اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ملک بھر میں بدمعاشی جیسے رویے کو بڑھنے سے اب روکنے کی اشد ضرورت ہے۔
نیوزی لینڈ کے College Wanganui Girls میں رابن ڈی یانگ نامی لڑکی پر ہونے والے حملے کی ویڈیو اتنی پُر تشدد تھی کہ اسے ملک کے ٹی وی چینل TV3 نے حملے کے تمام مناظر کے ساتھ نشر کرنے سے اجتناب کیا۔ جبکہ نیوزی لینڈ کے اخبار ہیرالڈ نے اس ویڈیو کو شدید تشدد کے مناظر رکھنے کے باعث اپنی ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے سے انکار کر دیا۔
ہیرالڈ اخبار کی رپورٹ کے مطابق لڑکی کے سر پر دو بار گھٹنے سے حملہ کیا گیا جبکہ 24 مکے مارے گئے۔ اس کے علاوہ اسے زمین پر پٹخنے کے بعد اس کے سر اور کمر پر لاتیں ماری گئیں جس کی وجہ سے اس کے کانوں سے خون بہنے لگا اور وہ بےہوش ہو گئی۔ اس وقت وہ شدید زخموں کے باعث ہسپتال میں زیر علاج ہے۔
تشدد کی شکار لڑکی رابن کا کہنا ہے کہ اسے لگتا ہے کہ اس پر حملہ اس وجہ سے ہوا ہے کیونکہ اس نے اپنے استادوں کو یہ بتایا ہے کہ اسے حملہ آور نے خبردار کیا تھا کہ اسے کوئی چھرا مار کے زخمی کر دے گا۔
ہیرالڈ کے مطابق پولیس نے حملہ آور طالبعلموں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ہے اسکول پرنسپل کے مطابق اسکول بورڈ جو سب سے سخت قدم اٹھا سکتا ہے اس کو استعمال کرتے ہوئے ذمہ دار طالبعلموں کو کالج سے نکال دیا گیا ہے۔
رپورٹ: عنبرین فاطمہ
ادارت: کشور مصطفی