1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیا امن عمل، شامی اپوزیشن کا وفد آستانہ پہنچ گیا

22 جنوری 2017

شامی اپوزیشن کا وفد دمشق حکومت کے نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کے لیے قزاقستان کے دارالحکومت آستانہ پہنچ گیا ہے۔ شام میں قیام امن کی خاطر یہ نیا مذاکراتی عمل کل پیر کے دن سے شروع ہو رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2WDGZ
Schweiz Syrien Friedensgespräche in Genf Mohammed Allusch
شامی اپوزیشن کی طرف سے اعلیٰ مذاکرت کار محمد علوش اتوار کی صبح آستانہ پہنچ گئے ہیںتصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini

خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ شامی اپوزیشن کی طرف سے اعلیٰ مذاکرت کار محمد علوش اتوار کی صبح آستانہ پہنچ گئے ہیں۔ آستانہ کے ہوائی اڈے پر موجود اے ایف پی کے ایک نمائندے نے بتایا ہے کہ علوش کے ہمراہ ان کے ساتھی بھی تھے، جو پیر سے شروع ہونے والے اس مذاکراتی عمل میں دمشق حکومت کے نمائندوں سے براہ راست مذاکرات کریں گے۔

عالمی امن کوششیں ناکام، اسد فورسز کا حلب پر بڑا حملہ شروع

شام میں جنگ بندی معاہدے کی اس بار پاسداری کی اصل وجوہات

روس اور امریکا شام میں فائر بندی پر راضی

 

روس اور ترکی کی ثالثی کے نتیجے میں منعقد ہونے والے ان مذاکرات میں شامی اپوزیشن کا اتحاد ملک میں قیام امن کی خاطر صدر بشار الاسد کے وفد کے ساتھ متعدد پہلوؤں پر گفتگو کرے گا۔ شامی اپوزیشن کے وفد میں پہلی مرتبہ ادلب آرمی، جنوبی محاذ اور صقرالشام جیسے کئی اہم باغی گروہوں کے نمائندے بھی شامل ہیں۔

شامی باغیوں سے رابطے میں ایک سفارتکار نے اپنا نام مخفی رکھنے کی شرط پر اے ایف پی کو بتایا ہے کہ شامی اپوزیشن کے وفد میں آٹھ باغی رہنما شامل تھے، جس میں اب اضافہ کر کے اس کی تعداد چودہ کر دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ اس مذاکراتی ٹیم میں اکیس قانونی اور سیاسی مشیر بھی شامل ہیں۔

دوسری طرف دمشق حکومت کا وفد دس ارکان پر مشتمل ہے، جس کی سربراہی بشار الجعفری کر رہے ہیں، جو اقوام متحدہ میں شام کے سفیر کے طور پر بھی اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ وفد بھی اتوار کے دن آستانہ پہنچ جائے گا۔

میڈیا رپورٹوں کے مطابق اس مذاکراتی عمل کے دوران باغیوں کا اصرار ہو گا کہ شام میں گزشتہ ماہ طے پانے والے جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد ممکن بنایا جائے۔ یہ سیز فائر روس اور ترکی کی کوششوں کے باعث ممکن ہوا تھا تاہم اس کے باوجود شام کے مختلف علاقوں میں تشدد کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔

آستانہ مذاکرات کو منعقد کرانے میں شامی صدر بشار الاسد کا حامی ملک ایران بھی تعاون کر رہا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ مذاکراتی عمل اس نئی پارٹنر شپ کے لیے ایک امتحان ثابت ہو گا۔ اقوام متحدہ کے مندوب برائے شام اسٹیفان ڈے مستورا بھی ان مذاکرات میں شریک ہیں۔ روسی میڈیا کے مطابق ڈے مستورا نے اس نئے امن عمل کو شام کی خانہ جنگی کے خاتمے کی کوشش کے لیے ایک ’اچھا آغاز‘ قرار دیا ہے۔

حلب ’’ایک بڑے قبرستان‘‘ میں بدل جانے کے خطرے سے دو چار