نہ ہمارے فوجی شام میں ہیں، نہ سعودی طیارے ترکی میں، انقرہ
15 فروری 2016ترک وزیر دفاع عصمت یلماز کے مطابق گزشتہ اختتام ہفتہ پرکوئی بھی ترک فوجی شام میں داخل نہیں ہوا۔ خبر رساں ادارے انادولو سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یہ سچ نہیں ہے۔ ترکی فوجیوں کے شام میں داخل ہونے کے بارے میں باتیں بالکل غلط ہیں۔‘‘ یہ الزامات شامی وزارت خارجہ کی جانب سے لگائے گئے تھے اور وزارت نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو ایک خط کے ذریعے ان سے آگاہ بھی کیا ہے۔
دمشق حکومت کے مطابق ہفتے کے روز شام میں داخل ہونے والے ایک سو مسلح افراد میں ترک فوجی بھی شامل تھے۔ یہ افراد ایسی بارہ گاڑیوں میں سوار تھے، جن پر مشین گنیں نصب تھیں۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ یہ افراد بشارالاسد حکومت کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کو مدد فراہم کرنے کی غرض سے آئے تھے۔
اس دوران گزشتہ اختتام ہفتہ پر ہی ترک بری فوج نے شمالی شام میں کرد ملیشیا ’وائی پی جی‘ کے ٹھکانوں پر بمباری کی تھی۔ یہ کارروائی اس وقت کی گئی، جب اس کرد گروپ نے صوبے حلب میں ایک فوجی ہوائی اڈے پر قبضہ کیا۔ یہ علاقہ ترکی کی جنوبی سرحد کے انتہائی نزدیک واقع ہے۔
انقرہ حکومت کے مطابق ’وائی پی جی‘ ایک دہشت گرد تنظیم ہے اور یہ کالعدم کردستان ورکز پارٹی ’ پی کے کے‘ کا ہی ایک حصہ ہے۔ پی کے کے گزشتہ اکتیس برسوں سے ایک خود مختار کردستان کے قیام کے لیے مسلح کارروائیاں کر رہی ہے۔ امریکا، ترکی اور یورپی یونین اسے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
ترک وزیر دفاع عصمت یلماز نے ایسی خبروں کو بھی مسترد کر دیا کہ سعودی عرب کے جنگی طیارے ترکی پہنچ بھی چکے ہیں۔ ان کے بقول تاہم یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ سعودی عرب ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف کارروائیوں میں حصہ لینے کے لیے اپنے چار ایف سولہ طیارے بھیجے گا۔ دوسری جانب اتوار کی شب شامی سرحد پر ایک جھڑپ میں ترکی کا ایک فوجی اہلکار ہلاک ہو گیا۔ فائرنگ کا تبادلہ اُس وقت ہوا، جب ایک گروپ غیر قانونی طور پر ترکی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہا تھا۔