نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن
18 جون 2010سیکیورٹی فورسز نے پچھلے دنوں مغربی بنگال کے لال گڑھ میں کارروائی کرکے آٹھ ماؤنوازوں کو ہلاک کرنے اور مغربی مدنا پور سے ایک خطرناک انتہاپسند کو گرفتار کرنے کا دعوی کیا تھا اور میڈیا کے سامنے اپنی کامیابی کے گن گائے تھے۔ لیکن اب یہ بات سامنے آرہی ہے کہ رامیشور مرمو نامی جس شخص کو گرفتار کیا گیا تھا وہ ایک گونگا، بہرا اور دماغی طور پربیمار شخص ہے۔ مرمو کے والد بنکم کا کہنا ہے کہ رامیشور بچپن سے ہی اس بیماری کا شکار ہوگیا تھا، جس کی وجہ سے اسے چوتھے جماعت کے بعد اپنی پڑھائی چھوڑ دینی پڑی۔
حقوق انسانی کے کارکن گوتم نولکھا نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی سیکیورٹی فورسز کے اہلکار نکسلیوں اور انتہاپسندوں کے خلاف کارروائیوں کے دوران بے گناہوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ماؤنوازوں کا کہنا ہے کہ لال گڑھ کی حالیہ کارروائی کے دوران سیکیورٹی فورسز کم از کم 72عام لوگوں کو پکڑ کر لے گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کارروائی کے دوران عام شہریوں کی کافی ہلاکت ہوئی ہے ۔
ادھر سیکیورٹی فورسز کے ذریعہ تصاد م میں ہلاک مبینہ نکسلیوں کی لاشوں کو ڈنڈوں میں لٹکا کر لے جانے کی مختلف حلقوں نے سخت مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کم سے کم لاشوں کے ساتھ مناسب سلوک کیا جانا چاہئے اور انہیں جانوروں کی طرح ڈنڈوں میں لٹکا کر لے جانا غیر انسانی سلوک ہے۔ حالانکہ نیم فوجی دستے سی آر پی ایف نے ان تصاویر کی اشاعت پر اپنی پیٹھ تھپتھپانے کی کوشش کی تھی لیکن یہ تصویریں اب خود اس کے گلے کی ہڈی بن گئے ہیں ۔
مرکزی وزارت داخلہ نے بھی ان تصاویر پر سخت ناراضگی کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کے واقعات کا سخت نوٹس لیا جائے گا۔ اس نے کہا کہ اس طرح کے واقعات دہرائے نہ جائیں۔ تاہم حکومت نے کہا کہ ماؤنوازوں کے خلاف کارروائی جاری رہے گی کیوں کہ وہ ترقی کا کوئی کام کرنے نہیں دے رہے ہیں۔سی آر پی ایف کے نکسلی آپریشن کے ڈائریکٹر جنرل نے ان تصاویر کو افسوس ناک اور شرمناک قرار دیا ہے۔
ان واقعات کے بعد یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ سیکیورٹی فورسز کی اس طرح کی کارروائیوں سے عوام کی ناراضگی میں کہیں مزید اضافہ نہ ہوجائے۔ گوتم نولکھا کا کہنا ہےکہ لوگوں کا غصہ بڑھنا فطری ہے۔ انہوں نےکہا کہ ان کارروائیوں کا آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے بھی کہیں نہ کہیں تعلق ہے۔ انہوں نے کہا کہ چھتیس گڑھ میں جس طرح سلواجوڈوم کا استعمال کیا گیا تھا اسی طرح مغربی بنگال میں ہرمڈ کا استعمال کیا جارہا ہے۔ ہرمڈ بائیں بازو کی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ ہیں جنہیں ہتھیار فراہم کرائے گئے ہیں اورجو سیکیورٹی فورسز کے ساتھ مل کر نکسلیوں کے خلاف آپریشن میں شامل ہیں۔
ادھر نکسیلوں نے مغربی بنگال میں اپنے آٹھ ساتھیوں کی ہلاکت پر جمعہ کے روز سے اگلے چار دنوں کے لئے یوم شہید منانے کا اعلان کیا ہے۔ ریاستی حکومت نے اس اعلان کے مدنظر سیکیورٹی فورسز کو زیادہ چوکنا رہ کر کارروائی کرنے کا مشورہ دیا ہے دوسری طرف ریلوے نے مغربی بنگال کے نکسلی متاثرہ علاقوں سے رات میں تمام ٹرینوں کی آمدورفت روک دی ہے۔
دریں اثنا حکومت ہند نے اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں نکسلی مسئلے کو مسلح تصادم کے زمرے میں شامل کرنے پر سخت اعتراض کیا ہے اور کہا کہ نکسلی گروپوں کے ذریعہ جس طرح کے تشدد کئے جارہے ہیں وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت مسلح تصادم کے زمرے میں نہیں آتے ہیں۔
رپورٹ : افتخار گیلانی
ادارت : عدنان اسحاق