1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نکاح نامے میں دلہن کے طلاق کے حق کا خانہ، پنجاب حکومت سرگرم

وقار مصطفیٰ ، لاہور
27 جنوری 2017

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہٴ پنجاب میں نکاح کا اندراج کرنے والے عمال کے لیے تربیت کا اہتمام کیا جا رہا ہے تاکہ وہ ان حقوق کا تحفظ کریں، جو شادی کی صورت میں خواتین کو ملتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/2WVRF
Ehevertag bei Muslimen und die Rechte einer Braut
عموماً خاندان کے بڑے بزرگ ہی نکاح نامے کو پُر کرتے ہیں اور خاص طور پر طلاق کے حق سے متعلق شق کو پُر کرنا بُرا شگون تصور کیا جاتا ہے (فائل فوٹو)تصویر: Abid Zia

ماہرین کا کہنا ہے کہ اسلام میں مرد کی جانب سے ایجاب اور عورت کے قبول کرنے کے عمل کو نکاح کہتے ہیں، جس کا وہ اپنی مرضی اور رضا مندی سے باہمی طور پر اعلان کرتے ہیں۔ نکاح عورت کے حقوق کو تحفظ دینے اور اسے یقینی بنانے کا نام ہے۔

عائلی قوانین کے ماہر شفقت اللہ کے مطابق پاکستان میں نکاح نامہ فارم پر 25 شقیں ہوتی ہیں۔

پہلی بارہ شقیں دلہا دلہن کے کوائف پر مشتمل ہیں۔ شق نمبر 13 تا 16 حق مہر سے متعلق ہیں۔ حق مہر لڑکی کا حق ہوتا ہےمگر کہہ دیا جاتا ہے کہ شرعی حق مہر لکھ دیا جائے۔ زیادہ سے زیادہ 5 ہزار لکھا جاتا ہے۔ شق نمبر 17 کسی خاص شرط کے بارے میں پوچھتی ہے۔ شق نمبر 18 یہ ہے کہ آیا شوہر نے طلاق کا حق بیوی کو تفویض کر دیا ہے، اگر ہاں تو کن شرائط کے تحت۔ شق نمبر 19کہتی ہے کہ آیا شوہر کے طلاق کے حق پر کسی قسم کی پابندی لگائی گئی ہے؟ شق نمبر 20 میں سوال ہے کہ آیا شادی کے موقع پر نان و نفقہ، بیوی کے ماہانہ خرچے وغیرہ سے متعلق کوئی دستاویز تیار کی گئی ہے۔ شق نمبر 21 اور 22 مرد کی عائلی حیثیت اور شادی شدہ ہونے کی صورت میں پہلی بیوی سے اجازت سے متعلق ہے۔ باقی دو شقوں میں نکاح خواں اور شادی کے اندراج کی تفصیلات دی جاتی ہیں۔ جہاں باقی شقوں کے آگے تفصیلات لکھی جاتی ہیں، وہاں 13 تا 22 نمبر شقوں پر لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ یہ سب شقیں خواتین کے حقوق سے متعلق ہیں اور انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔

یہ مانتے ہوئے کہ ان کے نکاح نامے پر بھی ایسی ہی لکیر کھنچی ہے، پنجاب میں خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار نے کہا کہ وہ بھی نکاح نامے کے صحیح پُر کیے جانے اور اس کے مقامی حکومت میں اندراج کی اہمیت کی قائل ہیں۔

Ehevertag bei Muslimen und die Rechte einer Braut
آئندہ نکاح نامے کا کوئی کالم چھوڑ نے کی صورت میں 3 ماہ قید جبکہ 1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائےگی (فائل فوٹو)تصویر: Abid Zia

انہوں نے کہا کہ عموماً خاندان کے بڑے بزرگ ہی نکاح نامے کو پُر کرتے ہیں۔ خاص طور پر طلاق کے حق سے متعلق شق کو پُر کرنا بُرا شگون تصور کیا جاتا ہے۔ مگر اکثر دیکھا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق پر تب زد آتی ہے، جب ان کے نکاح کی دستاویز میں وہ کالم کاٹ دیے جاتے ہیں، جو ان کے حقوق سے متعلق ہوتے ہیں۔ یا ایسا اس لیے بھی ہوتا ہے کہ نکاح کو مقامی حکومت کے اداروں میں رجسٹر نہیں کروایا جاتا۔

فوزیہ وقارکے مطابق ان کے ادارے اور مقامی حکومت کے اشتراک سے صوبے کے چھتیس اضلاع میں منعقدہ تربیت سے انتالیس سو کے لگ بھگ نکاح رجسٹرار اورساڑھے آٹھ ہزار کے قریب مقامی حکومتوں کے سربراہ اور عملے کے ارکان مستفید ہوں گے۔

اس تربیت کا مقصد نکاح کے عمل میں شامل سرکاری عملے کو ایسے قوانین اور ان میں تبدیلیوں سے آگاہی فراہم کرنا ہے، جوخواتین کے حقوق سے متعلق ہیں تاکہ وہ نکاح کے وقت ان کا خیال رکھیں۔

تربیت میں شامل قوانین پیدائش کے اندراج، وراثت، مسلم فیملی لاز، کم عمری میں شادی اور خواتین کے تحفظ سے متعلق ہیں۔

پنجاب میں تحفظ حقوق نسواں ایکٹ 2015ء کے مطابق نکاح رجسٹرار کو نکاح نامے کے تمام کالم پُر کرنے کا پابند کیا گیا ہے۔ کالم چھوڑ نے کی صورت میں 3 ماہ قید جبکہ1 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جائےگی۔ پہلی بیوی سے بغیر اجازت شادی کرنے پر شوہر کو 1سال قید اور 5 لاکھ جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ ایکٹ کے مطابق مقدمے کی صورت میں باپ ہر ماہ کی 14تاریخ کو بچے کوخرچہ دینے کا پابند ہو گا بصورت دیگر مقدمہ سے شوہر کا تعلق ختم کر دیا جائے گا۔

Ehevertag bei Muslimen und die Rechte einer Braut
پنجاب میں خواتین کی حیثیت سے متعلق کمیشن کی سربراہ فوزیہ وقار کے مطابق نکاح نامہ صحیح طور پر بھرا جائے تو خواتین کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گےتصویر: Abid Zia

اگر مقدمہ خلع کا ہے اور حق مہر عندالطلب ہے تو قبل ازیں خلع کی صورت میں خاتون کو اپنا حق مہر 100فیصد چھوڑنا ہوتا تھا لیکن نئے قانون کے مطابق شوہر حق مہر کا 50 فیصد بیوی کو دینے کا پابند ہو گا اور اگر خاتون خلع کی بجائے طلاق طلب کرے تو شوہر اسے پورا حق مہر ادا کرنے کا پابند ہو گا۔ دوران مقدمہ علیحدگی یا ساتھ رہنے کی صورت میں شوہر عارضی خرچہ، جو عدالت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، ادا کرنے کا پابند ہو گا اور ادا نہ کرنے کی صورت میں مقدمہ خاتون کے حق میں ڈگری کر دیا جائے گا۔

وکیل شفقت اللہ کا کہنا ہے کہ نکاح نامہ پُر کرنا اور اس کا اندراج کروانا ایک قانونی تقاضا ہے، جس کی پاسداری لازم ہے۔ اکثر اوقات نکاح رجسٹرار دلہن کے حقوق کےبارے میں کالم پُر نہیں کرتے۔ اس حق کے نہ ہوتے ہوئے عورت اگر نا مساعد حالات میں آزادی چا ہے توعدالتوں میں مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے ،گواہ پیش کرنا پڑتے ہیں، الزام تراشیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، پھر کہیں وہ طلاق کی اہل قرار پاتی ہے۔ اس کے لیے اس کو اپنے کئی حقوق سے دستبردار ہونا پڑتا ہے اور مرد کی جانب سے دیے گئے تحائف وغیرہ واپس کرنا پڑتے ہیں۔

فوزیہ وقار کا کہنا ہے کہ اگر نکاح نامہ صحیح طور پر بھرا جائے تو خواتین کے بہت سے مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے۔