1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نواز لیگ اور پیپلز پارٹی ٹکراؤ اور فوج کا ممکنہ کردار

11 مارچ 2009

وکلاء اور سیاسی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے تو ایک طرف تو حکومت نے لانگ مارچ کو ہر صورت ناکام بنانے کا تہیہ کر رکھا ہے۔

https://p.dw.com/p/HA3s
وکلاء تحریک میں شامل مظاہرینتصویر: AP

دوسری طرف پنجاب میں گورنر راج اور دفعہ 144 لگانے کے ساتھ ساتھ ق لیگ کو ساتھ ملانے کے لئے مبینہ طور پر پنجاب کی وزارت اعلیٰ کی بھی پیشکش کر دی گئی ہے ۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے درمیان رابطے آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران کسی باقاعدہ مفاہمت کی شکل اختیار کر سکتے ہیں اور اس صورت میں حکمران پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید وسیع ہو سکتی ہے کیونکہ اس طرح گورنر راج ہٹنے کے بعد بھی کم از کم وقتی طور پر اکثریتی جماعت یعنی ن لیگ کو حکومت سازی سے محروم کر دیا جائے گا۔ اس صورت میں سیاسی محاذ آرائی مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور غالباً اسی خدشے کے پیش نظر فوج کے سربراہ جنرل اشفاق کیانی نے بدھ کی صبح وزیر اعظم گیلانی کے ساتھ ملاقات میں سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

Polizisten verhaften einen Anwalt in Lahore, Pakistan
وکلاء اور سیاسی کارکنوں کو بڑی تعداد میں گرفتار کیا جا رہا ہےتصویر: AP

سفارتی حلقوں میں بھی موجودہ حالات میں خاص طور پر فوج کے ممکنہ کردار کے حوالے سے خاصی بے چینی پائی جاتی ہے اور بڑے ممالک کے سینئر سفارتی نمائندے سیاسی رہنمائوں کے ساتھ ملاقاتوں میں آئندہ چند روز کے دوران فوج اور سویلین حکومت کے تعلقات کی نوعیت جانچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار احمد بلال محبوب کے خیال میں امن و امان کی خراب صورتحال فوج کے لئے عموماً تشویش کا باعث بنتی ہے۔

’’حقائق یہ ہیں کہ پاکستان میں جب بھی لاء اینڈ آرڈر اس بری طرح سے خراب ہوتا ہے کہ ملک کے دستوری معاملات نہیں چل سکتے تو کوئی چاہے یا نہ چاہے پھر فوج اس کے اندر مداخلت کرتی ہے ۔‘‘

مبصرین کے خیال میں ایک طرف پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے رابطوں اور دوسری طرف شریف برادران کے عوامی جلسوں سے صاف ظاہر ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں براہ راست ٹکراؤ کی طرف بڑھ رہی ہیں ۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں منعقدہ ایک سیمینار میں شریک نصف درجن سے زائد تجزیہ نگاروں اور مبصرین کے خیال میں اس وقت حالات کو بہتر بنانے کی کم از کم 80 فیصد ذمہ داری صدر زرداری پر عائد ہوتی ہے اور اگر انہوں نے یہ ذمہ داری نہ نبھائی تو اس کا براہ راست نقصان جمہوری نظام کو ہو سکتا ہے۔