نمائش: گناہوں سے کفارے تک
1 دسمبر 2010اس نمائش میں نازی دور کے جنگی جرائم کے خلاف قائم ہونے والے مقدمات کے بارے میں تاریخی دستاویزات، فلمیں اور تصاویر رکھیں گئی ہیں۔
اس نمائش کی افتتاحی تقریب میں اعلیٰ سرکاری نمائندوں کے ساتھ ساتھ پولینڈ، جاپان، رومانیہ، بیلجیئم، اٹلی، اسپین اور فرانس سے آئی ہوئی کیمرہ ٹیمیں اور صحافی بھی موجود تھے۔
نیورمبرگ کے میئر دنیا بھر سے آئے ہوئے صحافیوں سے مخاطب ہیں۔ وہ نیورمبرگ کی عدالت کے ہال نمر چھ سو کی تاریخ کے بارے میں بتاتے ہیں۔ ’’میں نہیں جانتا کہ آیا اِس ہال نمبر600 میں آ کر آپ بھی ویسا ہی محسوس کر رہے ہیں، جیسا کہ میں۔ یہ وہ جگہ ہے، جہاں دنیا کی تاریخ لکھی گئی ہے۔‘‘
ہال نمبر چھ سو میں خالی کرسیاں پڑی ہیں۔ اس ہال میں آج بھی مقدموں کی سماعت کی جاتی ہے۔ عدالت کے اس ہال میں نازیوں پر انسانیت کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت مقدمات چلائے گئے تھے۔ نیورمبرگ میوزیم کے ڈائریکٹر ماتھیاس ہینکل کا کہنا ہے۔
’’اگر دیکھا جائے تو یہ کوئی خوبصورت ہال نہیں ہے۔ 65 برس قبل اس ہال میں انسانیت کے خلاف ناقابلِ تصور جرائم کے مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔ آج کل یہاں قتل کے مقدمات کی کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔ ہال اپنی اصلی قدیم شکل میں ہے لیکن اِس میں ساٹھ کی دہائی کے پُر کشش طرزِ تعمیر کی جھلک بھی موجود ہے۔‘‘
جدید دور کے چند مفکر اس ہال کے بارے میں دو نظریات رکھتے ہیں۔ ان کے لئے یہ ہال نہ تو ایک عام ہال ہے اور نہ ہی یہ کوئی تاریخی ہال ہے۔ اہم چیز عدالت کے بالائی کمروں میں لگائی گئی نمائش ہے۔ اس نمائش سے نازیوں کے خلاف چلائے گئے مقدمات کی تاریخ کا پتہ چلتا ہے۔ دستاویزات کی دیکھ بھال کے لئے قائم کئے جانے والے ادارے کے سربراہ کرسٹیان ٹوئیبرِش کا کہنا ہے۔ ’’ ہمیں امید ہے کہ ہم نے اس نمائش کے ذریعے ہال نمر چھ سو کے بارے میں تاریخی اور جامع معلومات کے لئے ایک ٹھوس بنیاد فراہم کی ہے۔‘‘
چھیاسی سالہ ہیڈی ایپ شٹائن کے لئے نمائش کا افتتاح ایک یادگار دن ہے۔ وہ اس بارے میں کہتی ہیں۔’’ میرے لئے آج کا دن ماضی کو یاد کرنے کا دن ہے۔ میں جونہی کمروں کے درمیان سے گزرتی ہوں، تو ماضی کی تمام سوچیں اور یادیں واپس آجاتی ہیں۔‘‘
1939ء میں یہودیوں کے قتل عام کے دوران ہیڈی ایپ شٹائن جان بچا کر جرمنی سے امریکہ چلی گئی تھیں۔ بعد میں وہ امریکیوں کی اُس ٹیم کے ساتھ واپس آگئی تھیں، جس نے نازی ڈاکٹروں پر فردِ جرم عائد کی تھی۔ انہیں آج بھی یاد ہے کہ اِس ہال میں کتنے بے رحمانہ واقعات کے مقدمات کی کارروائی عمل میں آئی۔ مورِٹس فُکس اُس زمانے میں امریکی مستغیثِ اعلیٰ رابرٹ جیکسن کے محافظ کے طور پر کام کر رہے تھے۔ آج وہ اپنی پادیں تازہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں۔
’’میں عدالت کے اس ہال میں محض ایک عام شخص کے طور پر موجود تھا۔ تب میری عمر صرف 20 سال تھی اور مجھے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرتے ہوئے ابھی صرف دو ہی سمسٹر گزرے تھے اور ابھی میرے پاس کوئی قانونی تجربہ نہیں تھا۔‘‘
آرنو ہمبرگر کا تعلق بھی نیورمبرگ سے ہے۔ وہ بھی یہاں سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے اور سن 1945ء میں ایک برطانوی فوجی کے طور پر واپس آئے تھے۔ نیورمبرگ مقدمات میں اُنہوں نے ایک مترجم کے طور پر کام کیا۔ آج اُن کی عمر ستاسی برس ہے۔ اُن کا کہنا ہے۔’’آج کی یہ نمائش جرم اوراس کے کفارے کے درمیان ایک پل ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ مجرموں کو کس طرح سزا ملی۔ اور مجھے اس پر فخر ہے کہ یہ سب کچھ میرے شہر میں ہوا ہے۔‘‘
اس نمائش کی افتتاحی تقریب میں جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے اور اُن کے روسی ہم منصب سیرگے لاوروف کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور فرانس کے اعلیٰ حکومتی نمائندوں نے بھی شرکت کی۔
رپورٹ: کرونیلیہ رابرٹس/ امتیاز احمد
ادارت: امجد علی