نظر انداز بیماریوں کی بین الاقوامی کانفرنس
1 اپریل 2010بڑے ملکوں میں قائم بین الاقوامی دواساز اداروں میں کئی مہلک بیماریوں کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاتا۔ اِن مہلک بیماریوں کے حوالے سے برازیل میں ایک تین روزہ کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ برازیل کا انتخاب بھی اِس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی دوا ساز ادارے اِن مہلک بیماریوں پر سردست توجہ دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ اِس کی ایک اہم وجہ عالمی کساد بازاری بھی بتائی جاتی ہے۔
برازیل کے شہر ریو ڈی جینریو میں ہونے والی کانفرنس کو عالمی ادارہ صحت کا تعاون حاصل تھا۔ پیر سے شروع ہونے والی کانفرنس بدھ تک جاری رہی۔ شرکاء میں دوا ساز اداروں کے محققین اور ڈاکٹر بھی شامل تھے۔
کانفرنس میں شریک دنیا بھر سے ماہرین نے اُن بیماریوں پر توجہ مرکوز کرانے کی کوشش کی جن کو کلی طور پر نظر انداز کیا جا چکا ہے۔ یہ نظر انداز کی گئی بیماریاں انتہائی مہلک اور اِن میں مبتلا افراد کی تعداد کروڑوں ہیں۔
کانفرنس میں دوا ساز کمپنیوں کی جانب سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ وہ مستقبل قریب میں اِن پر تحقیق کا عمل شروع کر کے مدافعتی دوا مارکیٹ کرنے کی کوشش کریں گے۔ کسی حتمی تاریخ کا تعین کرنے سے سے بھی وہ قاصر رہے۔کانفرنس میں شرکا کی توجہ تین اہم بیماریوں پر تھی، جن سے ہر شخص واقف بھی نہیں ہے۔ بیماریوں کا مختصر تعارف یہ ہے:
وائسرل لائش مینیاسس
غریب اور ترقی پذیر ملکوں میں ملیریا کے بعد یہ مرض انتہائی مہلک تصور کیا جاتا ہے۔ یہ ایک متعدی مرض ہے۔ اس کو کالا آزار بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں بھی یہی نام مستعمل ہے۔ سب سے پہلے یہ بنگلہ دیش کے شہر جیسور میں دریافت کی گئی تھی۔ شروع شروع میں اِس کو ملیریا ہی خیال کیا جاتا تھا۔ اس بیماری میں مبتلا ہو کر سالانہ تقریبا پانچ لاکھ افراد ہلاک ہو جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ایڈز کے ساتھ یہ مل کر مزید خطرناک ہو جاتی ہے۔ اِس بیماری میں جرثومہ جگر، تلی یا لبلبہ میں بیٹھ کر انسانی بدن کو کمزور کردیتا ہے۔ اِس کا ابتدائی علاج سن انیس سو انتیس میں بھارتی ڈاکٹر اپندر ناتھ برہم چاری کی جانب سے سامنے آیا تھا۔ اُن کو فزیالوجی کے نوبل انعام کے لئے بھی نامزد کیا گیا تھا۔ کالا آزاربیماری کے جین بدل کر سامنے آنے والے جرثومے کی کوئی مکمل شفا آور دوا میسر نہیں۔
چاگاس بیماری
امریکی براعظموں میں یہ ایک خاموش کلر کے طور پر پائی جاتی ہے۔ متعدی مرض کی وجہ سے انسانوں میں پھیلتی ہے۔ اِس کی ابتدا میں تو خبر بھی نہیں ہوتی لیکن رفتہ رفتہ انسان بخار میں مسلسل مبتلا رہنے سے کمزور ہوجاتا ہے اور پھر قے سے رہی سہی کسر نکل جاتی ہے۔ کالا آزار کی طرح اِس کا جراثیم بھی معدے کے غدود پر حملہ کرتا ہے۔ تاحال اِس کی کوئی مدافعتی دوا دستیاب نہیں ہے۔ اِس کی دریافت ایک برازیلی ڈاکٹر کارلوس چاگاس نے کی تھی۔
سلیپنگ سکنس
اسی طرح افریقی ملکوں خاص طور پر سہارہ صحرا کے خطے کے ملکوں میں پائی جانے والی مہلک بیماری سلیپنگ سکنس کے لئے بھی مدافعتی ویکسین ہنوز دریافت نہیں ہو سکی ہے۔ یہ بیماری ایک مکھی ٹک ٹک یا ٹیسی ٹیسی کے کاٹنے سے جسم میں پرورش پاتی ہے۔ صحارہ خطے کےچھتیس ملکوں میں مبتلا افراد کی تعداد چھ کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ کئی ملکوں میں یہ وبا کے طور پر بھی پھیل چکی ہے۔ مرض کی جب شدت بڑھ جاتی ہے تو مریض بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے۔ سارا دن وہ مریل گھوڑے کی طرح رہتا ہے۔ خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس بیماری میں انسانی ذہن پر بھی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تاہم اب سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس بیماری کے علاج کے لئے پیش رفت ہوئی ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل