1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناگاساکی: جب آناً فاناﹰ 74 ہزار انسان موت کی نیند سو گئے

امجد علی9 اگست 2016

جاپانی شہر ناگاساکی پر امریکی ایٹم بم 9 اگست 1945ء کو قبل از دوپہر گیارہ بج کر دو منٹ پر گرایا گیا تھا۔ اس سال اس ہولناک واقعے کو، جس میں ہزارہا انسان موت کے منہ میں چلے گئے، اکہتّر برس پورے ہو رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1JeWA
Nagasaki Gedenken an die Opfer der Atombombe Japan
9 اگست 1945ء کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کے بعد ابتدائی لمحات میں ہی اکٹھے 74 ہزار انسان موت کے منہ میں چلے گئے تھےتصویر: picture-alliance/dpa/A.Guzman

امریکیوں نے ناگاساکی پر ایٹم بم گرانے سے تین ہی روز قبل چھ اگست 1945ء کو جاپان ہی کے شہر ہیروشیما پر بھی ایٹم بم گرایا تھا، جس کے نتیجے میں فوری طور پر اور تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں بعد کے برسوں میں مجموعی طور پر ایک لاکھ چالیس ہزار انسان لقمہٴ اجل بن گئے تھے۔

ناگاساکی پر ایٹم بم گرنے کے نتیجے میں ہونے والے ابتدائی دھماکے نے ہی آناً فاناً چوہتر ہزار انسانوں کو موت کی نیند سُلا دیا تھا جبکہ آنے والے برسوں میں مزید ہزارہا انسان تابکاری کے اثرات کے نتیجے میں موت کے منہ میں چلے گئے۔

منگل نو اگست کو ناگاساکی پر ایٹم بم گرائے جانے کے واقعے کے اکہتّر سال پورے ہونے کے موقع پر ایک یادگاری تقریب کا اہتمام کیا گیا، جس میں اس ہولناک واقعے میں زندہ بچ جانے والے عمر رسیدہ افراد کے ساتھ ساتھ مرنے والوں کے لواحقین بھی شریک ہوئے اور عین گیارہ بج کر دو منٹ پر یعنی ایٹم بم گرائے جانے کے وقت گھنٹیاں بجا کر مرنے والوں کی یاد تازہ کی گئی۔

اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ناگاساکی کی خاتون میئر تومی ہِیسا تاؤ نے امریکی صدر باراک اوباما کی تعریف کی، جنہوں نے پہلے امریکی صدر کے طور پر اس سال ہیروشیما کا تاریخی دورہ کیا تھا۔ اُنہوں نے کہا: ’’حقائق کا پتہ چلنا ایک نقطہٴ آغاز ہوتا ہے، جہاں سے انسان ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا کے بارے میں سوچنا شروع کرتا ہے۔‘‘ ایسا کہتے ہوئے وہ دراصل دیگر عالمی رہنماؤں سے یہ کہہ رہی تھیں کہ وہ آ کر اُن کے شہر کو اپنی آنکھوں سے دیکھیں تاکہ اُنہیں اکہتر سال پہلے پیش آنے والے واقعے کا صحیح معنوں میں ادراک ہو سکے۔

اس موقع پر مقامی حکام کے ساتھ ساتھ اکہتر سال پہلے کے واقعے میں زندہ بچ جانے والوں نے بھی اس امر پر زور دیا کہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ کے بعد امن پسندی کا جو راستہ اپنایا تھا، اُس پر اُسے کاربند رہنا چاہیے۔

Nagasaki Gedenken an die Opfer der Atombombe Japan
9 اگست 2016ء کو جاپانی شہر ناگاساکی کے بچے اکہتر سال پہلے کے واقعے کی یاد میں کبوتروں کی شکل کے سفید غبارے فضا میں چھوڑ رہے ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/A.Guzman

ناگاساکی کی میئر نے بھی موجودہ جاپانی حکومت کو ہدفِ تنقید بنایا کہ جہاں وہ ایک طرف جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کی وکالت کر رہی ہے، وہاں بدستور ایسے ہتھیاروں کو حریف کو خائف رکھنے کے حربے کے طور پر برقرار رکھنے پر بھی انحصار کر رہی ہے۔

جاپانی وزیر اعظم شینزو آبے نے ناگاساکی میں عالمی رہنماؤں پر ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے کی پاسداری کے لیے زور دیا اور کہا کہ پوری عالمی برادری کو ایسی کوششیں کرنا چاہییں کہ ہیروشیما اور ناگاساکی کی تاریخ پھر کبھی بھی نہ دہرائی جا سکے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید