1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں چھ ہزار افراد گرفتار

مقبول ملک17 جولائی 2016

ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد ملکی وزیر انصاف کے مطابق اب تک قریب تین ہزار باغی فوجیوں سمیت چھ ہزار افراد کو گرفتار اور تقریباﹰ تین ہزار ججوں کو برطرف کیا جا چکا ہے۔ حکومت کے مطابق ’کلین اپ‘ کا یہ عمل جاری رہے گا۔

https://p.dw.com/p/1JQQO
Türkei Putschversuch Tausende von Menschen reagieren gegen Aufstand Versuch
سول حکومت کے دفاع میں ترک شہری باغی فوجیوں کے آگے بڑھتے ہوئے ایک ٹینک کو روکنے کی کوشش کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/abaca/AA

استنبول سے اتوار سترہ جولائی کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق جمعہ پندرہ جولائی کی رات مسلح افواج کے ایک دھڑے نے حکومت کا تختہ الٹنے کی جو کوشش شروع کی تھی، اس میں مجموعی طور پر 265 افراد ہلاک اور ڈیڑھ ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ مرنے والوں میں ایک جنرل سمیت بہت سے باغی فوجی افسران اور سپاہی بھی شامل تھے جبکہ باقی یا تو فوج کے حکومت نواز دھڑے اور پولیس کے اہلکار تھے یا پھر وہ عام شہری جنہوں نے اپنے اپنے طور پر اس فوجی بغاوت کے خلاف مزاحمت کی کوشش کی۔

ایردوآن انتظامیہ کے خلاف اس بغاوت پر ہفتہ سولہ جولائی کی صبح تک قابو پا لیا گیا تھا۔ ترک وزیر انصاف باقر بوزداگ نے آج استنبول میں بتایا کہ ناکام بغاوت کے بعد اتوار کی دوپہر تک قریب چھ ہزار افراد کو گرفتار کیا جا چکا تھا، جن میں سے تقریباﹰ نصف فوجی ہیں۔ ان باغی فوجیوں میں کم ازکم پانچ جنرل اور انتیس کرنل کے عہدے کے افسران ہیں جبکہ بہت سے دیگر ان سے نچلی سطح کے افسر تھے۔

وزیر انصاف بوزداگ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ان گرفتاریوں کے علاوہ فوج اور عدلیہ میں فرائض انجام دینے والے ہزاروں دیگر اہلکاروں کو برطرف بھی کر دیا گیا ہے۔ باقر بوزداگ نے کہا، ’’یہ اقدامات سرکاری شعبے کی تطہیر کے لیے اس ’کلین اپ‘ کا حصہ ہیں، جس میں سب سے زیادہ توجہ مسلح افواج اور عدلیہ پر دی جا رہی ہے۔‘‘´

Türkei Istanbul Beisetzung Opfer Putschversuch
ناکام بغاوت کے دوران مارے جانے والے بہت سے افراد کی تدفین اتوار کے روز کی گئیتصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

سرکاری خبر رساں ادارے انادولو نے لکھا ہے کہ وزیر انصاف نے یہ بھی کہا کہ جن سرکاری اہلکاروں کو برطرف یا گرفتار کیا گیا ہے، حکومت کی طرف سے ان سے متعلقہ قانونی ضابطوں پر لازمی لیکن شفاف عمل درآمد کے لیے کارروائی بھی ساتھ ساتھ کی جا رہی ہے۔

کل ہفتہ کے روز ملنے والی خبروں میں کہا گیا تھا کہ حکومت نے ملکی عدلیہ میں ججوں یا پراسیکیوٹرز کے طور پر کام کرنے والے قریب تین ہزار اہلکاروں کو بھی معطل کر دیا ہے۔ اس بارے میں وزیر انصاف نے آج یہ وضاحت کی کہ عدلیہ کے یہ اہلکار معطل نہیں بلکہ ملازمتوں سے برطرف کیے گئے ہیں۔

باقر بوزداگ نے صحافیوں کو بتایا، ’’ملک کے اعلیٰ ترین جوڈیشل بورڈ کے متعد ارکان کے برطرف کیے جانے کے علاوہ تین ہزار کے قریب چھوٹی عدالتوں کے جج بھی برطرف کر دیے گئے ہیں۔ ان کی تعداد 2745 بنتی ہے۔ اس کے علاوہ 250 ججوں اور پراسیکیوٹرز کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔‘‘

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اس ناکام بغاوت کی پشت پناہی کا الزام امریکا میں مقیم ترک نژاد مسلم مبلغ اور اپنے ایک سابقہ حلیف فتح اللہ گؤلن پر لگایا ہے، جنہوں نے ایردوآن کے بقول ترکی میں ایک ’متوازی ریاستی ڈھانچہ‘ قائم کر رکھا ہے۔ ایردوآن نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکا گؤلن کو ملک بدر کر کے ترکی کے حوالے کرے۔

Türkei Bosphorus Brücke Panzer Kleidung und Helme von Soldaten
اقتدار پر قبضے کی فوجی کوشش کا نتیجہ، باغی فوجیوں کی وردیاں اور ہتھیار زمین پرتصویر: Getty Images/G.Tan

آج اتوار کے روز ترکی میں جمعے کی رات اور ہفتے کے دن ناکام بغاوت میں مارے جانے والے ان سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں کی نماز جنازہ بھی ادا کی گئی، جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر باغی فوجیوں کی مخالفت میں سول حکومت کا دفاع کرنے کی کوشش کی۔ اتوار کے روز مختلف شہروں میں ان ہلاک شدگان کی غائبانہ نماز جنازہ کے لیے بھی بہت سے اجتماعات منعقد کیے گئے۔

اسی دوران ترک وزیر اعظم بن علی یلدرم نے آج اپنی سرکاری ٹیلی وژن سے نشر کی جانے والی ایک تقریر میں کہا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں اب معمول کی زندگی پوری طرح بحال ہو چکی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں