ناکام درخواست کے بعد جرمنی سے بے دخلی کا مجوزہ نیا قانون
12 اکتوبر 2016جرمن اخبار ڈی ویلٹ نے بدھ کے روز رپورٹ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہونے کے بعد کسی مہاجر کا جرمنی میں رہنا مشکل بنایا جا رہا ہے۔ یہ مسودہٴ قانون ابتدائی بحث کے لیے جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی کابینہ کے وزراء میں تقسیم کیا گیا ہے۔ کابینہ کی منظوری کے بعد اِس مسودے کو پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔
اخباری رپورٹ کے مطابق یہ نیا قانونی مسودہ وزیرداخلہ ٹھوماس ڈے میزیئر کی خصوصی ہدایت پر تیار کیا گیا ہے، جس کے تحت مہاجرین کی ملک بدری کے نئے قواعد و ضوابط متعارف ہو سکیں گے۔ اس قانون کے تحت ایسے مہاجرین جو قانون شکنی یا سلامتی کے لیے خطرے جیسی سرگرمیوں میں ملوث ہوں گے، انہیں باآسانی ملک بدر کیا جا سکے گا۔
جرمن وزیر داخلہ کی طرح دوسرے قدامت پسند حکومتی اہلکار کم از کم اُن مہاجرین کی جلد واپس روانگی کو مکمل کرنے کے متمنی ہیں جن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں مسترد کر دی گئی ہیں۔ مہاجرین کے معاملے پر جرمن چانسلر اور وزیر داخلہ تھوماس ڈے میزیئر کو اپنی سیاسی جماعت سی ڈی یُو کے علاوہ دائیں بازو کے نظریات کی حامل سیاسی جماعت الٹرنیٹیو فار جرمنی کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔
جرمن حکومت رواں برس جولائی میں رونما ہونے والے متعدد پرتشدد واقعات کے بعد مسترد درخواستوں والے مہاجرین کو ملک بدر کرنے کو ترجیحی بنیاد پر مکمل کرنے کی خواہش مند ہے۔ اسی تناظر میں دو روز قبل ایک بائیس سالہ شامی جابر البکر کو حراست میں لیا گیا ہے، جس کا فلیٹ بم سازی کی ایک چھوٹی سی فیکٹری میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہ شامی پولیس کو چکمہ دے کر فرار ضرور ہوا لیکن ایک دوسرے شہر لائپزگ میں تین دوسرے شامیوں کی مدد سے گرفتار کر لیا گیا۔ البکر کو جون سن 2015 میں عارضی طور پر سیاسی پناہ دی گئی تھی۔
البکر کے واقعے کے تناظر میں باویریا صوبے کے وزیر داخلہ نے اب تک منظور کی جانے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں کی دوبارہ نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے۔ اخبار ڈی ویلٹ کے مطابق جرمنی میں دو ملین سے زائد مہاجرین کو جلد یا بدیر واپسی کا سفر اختیار کرنا ہو گا۔ ان میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد ایسے ہیں جن کو عبوری رہائش کی اجازت دی جا چکی ہے۔ نئے مسودہٴ قانون کے تحت جھوٹ، دھوکا دہی یا فراڈ کی صورت میں غیرمعمولی رہائشی اجازت نامہ جاری نہیں کیا جائے گا۔