1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ناکام بغاوت میں قریب نو ہزار ترک فوجی شامل تھے

مقبول ملک27 جولائی 2016

ترک حکومت کے خلاف حالیہ ناکام بغاوت میں قریب نو ہزار فوجی اہلکار شامل تھے۔ بتایا گیا ہے کہ امریکا میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے والے مسلم مبلغ فتح اللہ گولن کے حامی ان فوجیوں کی تعداد ترک فوج کی نفری کا ڈیڑھ فیصد بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/1JWbO
Türkei Putschisten werden festgenommen
ناکام بغاوت کے بعد گرفتار کیے جانے والے ترک فوجیتصویر: picture-alliance/AA/Stringer

ترکی میں استنبول سے بدھ ستائیس جولائی کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق ملکی فوج کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ رواں ماہ کے وسط میں فوج کے ایک دھڑے نے انقرہ حکومت کا تختہ الٹنے کی جو ناکام کوشش کی تھی، اس میں مجموعی طور پر آٹھ ہزار چھ سو اکاون فوجی اہلکاروں نے حصہ لیا تھا۔ یہ تعداد ترک فوج کی مجموعی نفری کے 1.5 فیصد کے برابر بنتی ہے۔

این ٹی وی نامی ٹیلی وژن کی طرف سے نشر کردہ ترک فوج کے ایک بیان کے مطابق یہ ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد فوجی فتح اللہ گولن کی قیادت میں کام کرنے والے ’دہشت گردانہ‘ نیٹ ورک کا حصہ تھے۔ گولن امریکا میں مقیم ایک ایسے مبلغ ہیں، جو عشروں سے ایک اسلامی مذہبی تحریک چلا رہے ہیں۔

فوجی بیان کے مطابق پندرہ جولائی کو اس مسلح بغاوت کے لیے ان باغیوں نے 35 ہوائی جہاز استعمال کیے، جن میں 24 جنگی طیارے بھی شامل تھے۔ اس کے علاوہ فوج کے اس دھڑے نے اقتدار پر قبضے کے لیے 37 ہیلی کاپٹر بھی استعمال کیے، جس دوران دارالحکومت انقرہ میں فضائی حملے بھی کیے گئے تھے۔

روئٹرز نے لکھا ہے کہ ترک مسلح افواج کے مطابق فوجی بغاوت کی اس کوشش کے دوران قریب 300 افراد ہلاک اور دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے جبکہ باغی فوجیوں نے 37 ٹینک اور ڈھائی سو کے قریب بکتر بند گاڑیاں بھی استعمال کیں۔ لیکن بغاوت کی اس کوشش کو عوام اور مسلح افواج میں حکومت نواز دستوں کی اکثریت نے ناکام بنا دیا۔

Bildkombo Fethullah Gülen / Tayyip Erdogan
صدر ایردوآن، دائیں، اور فتح اللہ گولنتصویر: picture-alliance/Zaman/AA/B. Ozkan

فرار ہو کر یونان جانے والے باغی فوجی

یونانی دارالحکومت ایتھنز سے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ بغاوت کی اس کوشش کی ناکامی کے لمحات میں جو آٹھ ترک فوجی افسران ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرار ہو کر یونان پہنچ گئے تھے، ان کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کسی فیصلے کے لیے سماعت ملتوی کر دی گئی ہے۔

ان باغی ترک فوجی افسروں کے قانونی مشیروں میں شامل ایک خاتون وکیل مینیا پولی کرونی نے بدھ کے روز کہا کہ فی الحال یہ ترک باشندے اپنی درخواستوں پر کارروائی میں 19 اگست تک کے التوا کے حصول میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ پولی کرونی نے کہا کہ یہ قانونی کارروائی 26 اگست تک مکمل ہو جائے گی۔

ان باغی ترک فوجی افسروں کی پناہ کی درخواستوں کی سماعت آج ایتھنز میں ہوئی۔ اس موقع پر چار درخواست دہندگان ذاتی طور پر عدالت میں موجود تھے جس کے بعد تمام آٹھ درخواست گزاروں کے لیے یہ سماعت انیس اگست تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔

Türkei Putschversuch Militärhubschrauber in Alexandroupolis Flughafen
کئی ترک باغی فوجی افسر اس ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر یونان میں الیگزانڈروپولی شہر کے ہوائی اڈے پر اترے تھےتصویر: Getty Images/AFP/STR

یونان اور ترکی قبرص کے عشروں پرانے تنازعے کے باعث ایک دوسرے کے دیرینہ حریف ہیں اور پندرہ جولائی کو یہ ترک فوجی افسر جس ہیلی کاپٹر میں سوار ہو کر یونان پہنچے تھے، وہ ایتھنز حکام پہلے ہی انقرہ کو واپس کر چکے ہیں۔

انقرہ کا البتہ یہ بھی اصرار ہے کہ ایتھنز حکومت ان باغی ترک فوجیوں کو بھی واپس ترکی کے حوالے کرے لیکن اب تک یونان نے ترکی کا یہ مطالبہ پورا نہیں کیا اور ملکی قانون کے مطابق پہلے ان فوجی افسروں کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلہ کیا جائے گا۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں