1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نابینا انگلیوں سے چھُو کر پڑھ سکتے ہیں، ’بریل کا عالمی دن‘

علی کیفی Gudrun Heise
4 جنوری 2017

کاغذ پر اُبھرا ہوا ہر نقش نابینا افراد کے لیے کوئی نہ کوئی معنی رکھتا ہے اور وہ انگلیوں سے چھُو کر اُسے پڑھ سکتے ہیں۔ یہ تحریر ’بریل‘ کہلاتی ہے اور چار جنوری کو ’بریل کا عالمی دن‘ منایا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2VG0M
Symbolbild Blindenschrift
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/McPhoto

بریل تحریر دیکھنے اور چھُونے میں کیسی ہوتی ہے، یہ جاننے کے لیے شاید زیادہ دور جانے کی ضرورت نہ ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس تحریر کا نمونہ آپ کو اپنے گھر ہی میں مل جائے۔ وہ یوں کہ ادویات کے ہر پیکٹ پر ایک جگہ کچھ اُبھرے ہوئے نقطے ہوتے ہیں، جنہیں دیکھنے میں شاید کچھ مشکل پیش آئے لیکن ہاتھ سے چھُو کر اُنہیں محسوس کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔

بریل سے بھلا کیسے پڑھا جا سکتا ہے؟

دوا کے کسی پیکٹ پر بنے بریل نقطوں کو تلاش کر لینا پھر بھی آسان ہے تاہم یہ مرحلہ آنے پر کہ نقطے ہیں کتنے اور بنے کس ترتیب سے ہوئے ہیں، بہت سے آنکھوں والے ہار مان لیتے ہیں۔ ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایڈیٹر کے طور پر وابستہ اور زبانوں پر تحقیق کے ماہر اسکندر عابدی کہتے ہیں کہ یہ کام اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ذرا سی مشتق سے کوئی بھی بریل تحریر پڑھی جا سکتی ہے۔

Louis Braille Entwickler der Blindenschrift
چار جنوری 1809ء کو پیدا ہونے والے اور چھ جنوری 1852ء کو پیرس میں انتقال کر جانے والے لُوئی بریل نے اس طرزِ تحریر کو 1825ء میں متعارف کروایاتصویر: picture-alliance / dpa

چھ نقطے اور انہیں جوڑنے کے چونسٹھ امکانات

اس طرزِ تحریر کو چار جنوری 1809ء کو فرانس میں جنم لینے والے اور تین سال کی عمر میں ایک حادثے کے بعد بصارت سے محروم ہو جانے والے لُوئی بریل نے ایجاد کیا اور اُنہی کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال چار جنوری ہی کو بریل کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس طرزِ تحریر میں لکھتے وقت ہر ایک علامت چھ نقاط پر مشتمل ہوتی ہے، تین عمودی رُخ میں اور دو اُفقی رُخ میں۔ اس طرح مجموعی طور پر چھ پوزیشنیں ہوتی ہیں، جن میں سے ہر پوزیشن پر یا تو کوئی اُبھرا ہوا نقطہ ہوتا ہے یا پھر وہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ اس طرح جوڑنے کے کُل چونسٹھ امکانات بنتے ہیں۔ بریل بجائے خود کوئی زبان نہیں ہے بلکہ یہ اُن علامات کے کوڈز پر مشتمل ہوتی ہے، جو کسی زبان میں استعمال ہوتی ہیں۔ بریل لاطینی ہی نہیں بلکہ اور بہت سی زبانوں کے ساتھ ساتھ روسی، چینی اور فارسی میں بھی دستیاب ہے۔

انگلیوں کے ساتھ پڑھنا

بچپن سے نابینا اسکندر عابدی کی مادری زبان فارسی ہے:’’میرا وطن ایران ہے اور وہیں میں نے بریل تحریر سیکھی تھی۔ میں وہاں نابیناؤں کے ایک جرمن مشن کی طرف سے نابیناؤں کے لیے قائم کیے گئے ایک ہوسٹل میں رہتا تھا۔‘‘ یہ کرسٹوفل بلائنڈ مشن تھا، جس کے بانی پادری ایرنسٹ ژاکوب کرسٹوفل نے بریل تحریر کا فارسی وَرژن بنا کر ایران میں متعارف کروایا تھا۔ بریل پڑھتے وقت اسکندر عابدی کے دائیں اور بائیں ہاتھ کی انگلیاں کاغذ پر آگے پیچھے بھاگ رہی ہوتی ہیں۔

Brailletastatur
بریل کی بورڈ کی ایک جھلکتصویر: picture-alliance/dpa/K.-D. Gabbert

کمپیوٹر کے باوجود بریل ناگزیر

بریل طرزِ تحریر سے استفادہ کرنے والے اپنے تمام نابینا ساتھیوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ یہ طرزِ تحریر ضرور سیکیں کیونکہ ایسا کرتے ہوئے وہ نہ صرف پیشہ ورانہ زندگی میں آگے بڑھ سکتے ہیں بلکہ یہ علم تعلیم و تربیت میں بھی اُن کا معاون ثابت ہو سکتا ہے اور وہ اِسے مختلف طرح کی معلومات حاصل کرنے یا محض تفریح کے لیے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔