1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نائیجیریامیں مذہبی فسادات، سینکڑوں افراد ہلاک

20 جنوری 2010

نائیجریا کے شہر Jos میں اتوار کو شروع ہونے والے فرقہ وارنہ فسادات میں اب تک 464 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس ابتر صورتحال کو قابو میں کرنے کے لئے منگل کو وہاں حکومت نے کرفیو لگا دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/Lbpf
تصویر: AP

Jos میں کرفیو کے نفاذ کے بعد بھی شہر کے مضافات میں وقفے وقفے سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہنے کی اطلاعات موصول ہوئیں ہیں۔

نائیجریا کا شہر Jos ایک بار پھر فرقہ وارانہ آگ کا ایندھن بنا جس میں آزاد ذرائع کے مطابق اب تک 300 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ لیکن ہلاکتوں کے حوالے سے حکومت کا دعویٰ ہے کہ ان فسادات میں صرف 20 افراد مارے گئے ہیں جبکہ 40 زخمی ہوئے ہیں۔ ان فسادات کے پھوٹنے کے بعد سے پولیس نے اب تک 168مبینہ شرپسندوں کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا ہے۔

کرفیو کے نفاذ کے بعد بھی شہر میں خوف ہراس کا سماں رہا اورافواہوں نے خوفزہ شہریوں کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا۔ حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اسے ایسی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جس کے مطابق پولیس اورفوج کے یونیفارم میں ملبوس شرپسند عناصر شہریوں پر حملہ کر رہے ہیں لیکن یہ کہ حکومت اس طرح کی صورت حال سے نمٹنے کے لئے سخت اقدامات کررہی ہے۔

Jos University کےٹیچنگ ہسپتال کے ڈاکڑ Dabit Joseph کے مطابق نوے فیصد ہلاکتیں فائرنگ کی وجہ سے ہوئی جب کہ باقی ماندہ لوگ چاقو، تیر اور دوسرے ہتیھاروں کے حملوں میں ہلاک ہوئے۔

ان فسادات میں 20,000 کے قریب لوگ گھربدر ہوگئے ہیں۔ یہ افراد اب امدادی تنظیموں کی طرف سے لگائے گئے خیموں میں رہنے پرمجبورہیں۔ امدادی اداروں کے مطابق کشیدہ صورتحال کے نتیجے میں متاثرہ افراد کو پانی، خوراک، ادویات اور دیگرضروری سامان کی فراہمی میں شدید دشواری کا سامنا ہے۔

دوسوسے زائد لسانی اکائیوں والے نائیجریا میں اس سے پہلے بھی کئی پرتشدد واقعات ہوئے ہیں۔ انیس سو سڑسٹھ سے کر ستر تک جاری رہنے والی خانہ جنگی میں دس لاکھ کے قریب افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ان بڑی ہلاکتوں کے بعد بھی ملک میں وقتاً فوقتاً مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کے چھوٹے بڑے واقعات ہوتے رہے۔

Feuergefechte in Nigeria
Jos میں فوج نے کنٹرول سنبھال لیا ہےتصویر: AP

Jos ان میں سے کئی مذہبی اور فرقہ وارانہ فسادات کا مرکز رہا۔ ستمبر 2001 ء میں اس شہر کے 1000 ہزار سے زائد باشندے فرقہ وارانہ فسادات کا شکار ہوئے اورنومبر 2008ء میں تقریباً 700 شہری اس فرقہ وارانہ آگ کا ایندھن بنے۔

اطلاعات کے مطابق تین دن قبل یہ فرقہ وارانہ فسادات اُس وقت شروع ہوئے جب مسلمان اورمسیحی برادریوں کے افراد کے درمیان نومبر 2008 ء کے فرقہ وارانہ فسادات میں تباہ ہونے والے گھروں کی تعمیر نو کے مسئلے پر بحث شروع ہوئی۔ یہ بحث جلد ہی مسلح تصادم کی شکل اختیار کر گئی جس کے نتیجے میں تازہ ترین اطلاعات کے مطابق کم ازکم تین سو افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

رپورٹ: عبدالستار

ادارت: عاطف بلوچ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں