1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی یہودی بستیوں کی تعمیرامن میں ’مددگار‘ نہیں ہو گی، امریکا

3 فروری 2017

وائٹ ہاؤس کی جانب سے نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے اسرائیلی فیصلے کو امن کے حصول کے لیے ’غیرمعاون‘ قرار دیا گیا ہے۔ اس بیان کو صدر ٹرمپ کی فلسطین کے حوالے سے پالیسی میں تبدیلی کے اشارے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/2Wtdt
USA PK Sean Spicer Pressesprecher des Weißen Hauses
تصویر: Getty Images/AFP/B. Smialowski

وائٹ ہاؤس کے ترجمان سین سپائسر نے جمعرات کے روز کہا کہ امریکا یہ سمجھتا ہے کہ یہودی بستیوں کی موجودگی امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں، تاہم ان میں توسیع یا نئی بستیوں کا قیام امن کے حصول کے لیے مددگار ثابت نہیں ہوگا۔ یہ بیان اس بابت نئے امریکی صدر ٹرمپ کی پوزیشن میں تبدیلی سے عبارت ہے کیوں کہ اس سے قبل اپنے بیانات میں وہ اسرائیلی بستیوں کی تعمیر کی کھل کر حمایت کرتے رہے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد اسرائیل کی انتہائی دائیں بازو کے سیاست دانوں اور قدامت پسندوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق صدر باراک اوباما کے برعکس ٹرمپ یہودی بستیوں کی تعمیر کی اجازت دے دیں گے۔ اقوام متحدہ کی قرار داد کے باوجود ٹرمپ کے صدر بننے کے ایک ہفتے بعد  اسرائیل کی جانب سے سے مغربی کنارے میں تین ہزار نئے مکانات کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کر دیا گیا تھا۔

ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے سے باز رہیں، فرانس

وائٹ ہاؤس کے ترجمان کا اس حوالے سے مزید کہنا تھا، ’’ٹرمپ انتظامیہ نے یہودی بستیوں کی تعمیری سرگرمیوں کے حوالے سے ابھی کوئی بھی سرکاری موقف اختیار نہیں کیا ہے لیکن اس حوالے سے مزید بات چیت جاری رکھی جائے گی۔ رواں مہینے اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتین یاہو صدر ٹرمپ سے ملاقات کریں گے اور ان سے بھی بات چیت ہوگی۔‘‘

امریکی صدر پندرہ فروری کو وائٹ ہاؤس میں اسرائیلی وزیراعظم کو خوش آمدید کہیں گے۔

آج کل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں بسائے جانے والے یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ کے لگ بھگ ہے، جس سے مستقبل میں ان علاقوں کی اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تقسیم کا معاملہ انتہائی پیچیدہ شکل اختیار کر گیا ہے۔  تئیس دسمبر کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی مقبوضہ علاقوں میں ان گھروں کی تعمیر کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا اور باراک اوباما کی انتظامیہ نے اسے ویٹو بھی نہیں کیا تھا۔

ماضی میں ڈونلڈ ٹرمپ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ وہ امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیں گے، جس کے بعد نہ صرف فلسطینیوں بلکہ یورپی ممالک نے بھی ڈونلڈ ٹرمپ کو اس اقدام سے باز رہنے کا کہا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کو اس بات پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ وہ جمعے کے روز ہولو کاسٹ کی یاد کے حوالے سے اپنے بیان میں نازیوں کے ہاتھوں ساٹھ لاکھ یہودیوں کی نسل کشی کو بیان کرنا بھول گئے ہیں۔