نئی دہلی آج بھی آلودہ ترین شہروں میں سے ایک
19 دسمبر 2011تاہم ایک تازہ جائزے کے مطابق ہوش رُبا ترقی اور کاروں کی تعداد میں ڈرامائی اضافے کے نتیجے میں آج بھی نئی دہلی کی ہوا اُتنی ہی خراب ہے، جتنی کہ ایک عشرہ پہلے تھی۔ شہر بھر میں فضائی آلودگی کو ماپنے کے آلات نصب ہیں، جن کے مطابق ہوا میں موجود گرد کے انتہائی باریک ذرات کی مقدار اُس سے ہمیشہ دو یا تین گنا زیادہ ہی ہوتی ہے، جو شہر کی انتظامیہ نے رہائشی علاقوں کے لیے مقرر کر رکھی ہے۔
مزید یہ کہ آج بھی اِس شہر کا شمار بیجنگ، قاہرہ اور میکسیکو جیسے دُنیا کے آلودہ ترین دارالحکومتوں میں ہوتا ہے۔ اِس شہر کی سڑکوں پر پہلے سے رواں دواں چھ ملین کاروں میں ہر روز بارہ سو نئی کاروں کا اضافہ ہو رہا ہے۔ حکومت ڈیزل کو سبسڈی دیتی ہے اور اسی لیے فضا کو زیادہ آلودہ کرنے والا یہی ایندھن استعمال بھی زیادہ ہوتا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ گرد اور دھواں، جو پہلے باہر کھلی فضا تک ہی محدود رہتے تھے، اب گھروں کے اندر بھی دکھائی دیتے ہیں، جس سے زیادہ سے زیادہ شہری سانس کی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
نئی دہلی میں قائم سینٹر فار سائنس اینڈ انوائرنمنٹ کی ایگزیکیٹو ڈائریکٹر انومیتا رائے چوہدری کہتی ہیں کہ ’اِس شہر نے 2004ء اور 2005ء میں جو کامیابیاں حاصل کی تھیں، اب وہ اُن سے پھر محروم ہو چکا ہے‘۔
ایک دور میں، جب نئی دہلی کی آبادی 9.4 ملین تھی، اِس شہر کو کنٹرول کرنا نسبتاً آسان تھا۔ دوسرے شہروں سے روزگار کے لیے بھارتی دارالحکومت کا رُخ کرنے والے شہریوں کی وجہ سے اب اِس شہر کی آبای بڑھ کر 16 ملین تک جا پہنچی ہے۔
بھارتی دارالحکومت کی فضا کو بہتر بنانے کے لیے سن 1998ء سے لے کر 2003ء تک ایک کامیاب پروگرام پر عملدرآمد کیا گیا، جس کے تحت بجلی گھروں کو شہر کے مرکز سے دور منتقل کر دیا گیا اور بسیں اور رکشے چلانے کے لیے سی این جی استعمال کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو ا یندھن کی دیگر اَقسام کے مقابلے میں سب سے کم آلودگی پیدا کرتی ہے۔
ہوا میں دَس مائیکرو میٹر سے کم سائز کے PM10s کہلانے والے ذرات انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہیں۔ عالمی ادارہء صحت WHO کے مطابق یہ انتہائی باریک ذرات انسانی پھیپھڑے تک پہنچ جاتے ہیں اور پھر وہاں مستقل ڈیرا جما لیتے ہیں۔ WHO کے مطابق ان ذرات ہی کی وجہ سے ہر سال دُنیا بھر میں 1.34 ملین انسان موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت میں ایسی اموات ہزاروں میں ہیں۔ اِسی لیے اِس عالمی ادارے نے ہوا میں اِن ذرات کی زیادہ سے زیادہ مقدار 20 ذرات فی کیوبک میٹر تجویز کر رکھی ہے۔ نئی دہلی انتظامیہ نے 100 ذرات فی کیوبک میٹر کی قانونی حد مقرر کی تھی جبکہ آج کل اکثر اِس شہر میں 300 ذرات فی کیوبک میٹر بھی ماپے جاتے ہیں۔
بھارت میں ڈیزل کے لیے حکومتی مراعات کا بنیادی مقصد غریب کاشتکاروں کو جینریٹرز اور ٹریکٹروں کے لیے سستا ایندھن فراہم کرنا ہے تاہم اِس سرکاری اقدام کے نتیجے میں ڈیزل سے چلنے والی موٹر گاڑیوں کی تعداد میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے۔ جہاں سن 2000ء میں بھارت میں ڈیزل سے چلنے والی کاروں کا تناسب صرف چار فیصد تھا، وہاں ڈیزل سے چلنے والی نئی کاروں کی فروخت کا تناسب عنقریب پچاس فیصد کی حد تک پہنچنے والا ہے۔
نئی دہلی کی انتظامیہ نے PM10s کی مقدار میں کمی کے لیے مختلف طرح کے اقدامات متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے، جن میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولتوں کو بہتر بنانا اور شہریوں کو اپنی کاریں کم استعمال کرنے کی جانب مائل کرنا بھی شامل ہے۔ تاہم آیا اِن اقدامات کے نتیجے میں اس شہر کی آب و ہوا کو بہتر بنانے میں مدد مل سکے گی، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی۔
رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی
ادارت: حماد کیانی