نئی جرمن نسل کی موٹر گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی کم
26 اکتوبر 2011مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو، فوکس ویگن، آؤڈی، پورشے اور ایسے ہی کئی اور نام بھی اپنے اعلیٰ معیار اور کئی عشروں تک قابل استعمال رہنے کی وجہ سے دنیا بھر میں پسند کی جانے والی یہی جرمن موٹر گاڑیاں بیرون ملک اب بھی بڑی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں، جنہیں لوگ بڑے شوق سے چلاتے ہیں۔ ماضی میں عام جرمن شہری بھی گاڑیوں کے بہت شوقین تھے جو اب بھی ہیں، لیکن ایک نئی تبدیلی یہ ہے کہ اب جرمن باشندوں کی نئی نسل کی موٹر گاڑیاں خریدنے میں دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے اور تیس سال سے کم عمر کے ایسے شہریوں کی شرح بھی کم ہوتی جا رہی ہے، جن کے پاس اپنی کوئی گاڑی ہے۔
جنوبی جرمن شہر کارلسروہے میں قائم کارلسروہے انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی KIT کی ایک نئی تحقیق کے مطابق مرسیڈیز، بی ایم ڈبلیو اور فوکس ویگن کے ملک میں نئی نسل نے کار سازی کی صنعت کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس ادارے کی طرف سے کیے گئے ایک تازہ قومی سروے کے نتائج کے مطابق تیس سال سے کم عمر کے جرمن شہری ماضی کے مقابلے میں آج کم ڈرائیونگ کرتے ہیں۔
کارلسروہے کا یہ ادارہ سن 1994 سے ہر سال موسم خزاں میں ایک ہفتے تک پندرہ سو افراد سے اس بارے میں ان کی رائے دریافت کرتا ہے کہ وہ روزمرہ زندگی میں آمد و رفت کے لیے کس طرح کے ذرائع استعمال کرتے ہیں اور ان کی ترجیحات کیا ہوتی ہیں۔ یہ سالانہ جائزہ اب تک ایک ایسی روایت بن چکا ہے، جو جرمن باشندوں میں ڈرائیونگ سے متعلقہ نئے رجحانات کا پتہ دیتا ہے۔
اس سال اس جائزے سے یہ بات سامنے آئی کہ جرمن نوجوان ابھی بھی بالغ ہونے پر ڈرائیونگ تو سیکھتے ہیں اور بعد میں اپنی کوئی نہ کوئی گاڑی بھی خرید لیتے ہیں، لیکن موٹر گاڑیوں میں ان کی مجموعی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے اور وہ اپنی ذاتی سواری کی بجائے عوامی ذارئع آمد و رفت استعمال کرنا زیادہ پسند کرنے لگے ہیں۔
کے آئی ٹی کے اس سروے کے مطابق جرمنی میں 18 سال سے لے کر 30 سال تک کی عمر کی شہری ہر ہفتے اوسطاﹰ کوئی نہ کوئی گاڑی چلاتے ہوئے جتنا فاصلہ طے کرتے ہیں، اس میں 1995 کے مقابلے میں چار کلو میٹر فی ہفتہ کی کمی آ چکی ہے۔ اس کے برعکس اسی عمر کے جرمن نوجوان ہر ہفتے پبلک ٹرانسپورٹ کے ذریعے جتنا فاصلہ طے کرتے ہیں، اس میں 1995 کے مقابلے میں اب تک اوسطاﹰ قریب چھ کلومیٹر کا اضافہ ہو چکا ہے۔
کے آئی ٹی کے مارٹن کاگر باؤر کے بقول نوجوانوں نے جن عوامل کے سبب اپنی ذاتی گاڑیوں کا استعمال کم کر دیا ہے، ان میں شہری علاقوں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا بہت بہتر نظام، کار شیئرنگ کا بڑھتا ہوا رجحان، کرائے پر سائیکلیں حاصل کرنے کی سہولت اور آن لائن شاپنگ کی مقبولیت سب سے نمایاں ہیں۔
جرمنی میں کار سازی کی ملکی صنعت کی نمائندہ وفاقی تنظیم کے ترجمان اَیکے ہارٹ رَوٹر کے مطابق جرمنی موٹر ساز اداروں کو اس رجحان پر کوئی تشویش نہیں کہ جرمن نوجوانوں نے گاڑیاں خریدنا کم کر دیا ہے۔ ان کے بقول ایسا نہیں ہے کہ اندرون ملک ان کی تنظیم کے رکن کار ساز اداروں کے گاہک ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اَیکے ہارٹ رَوٹر کے مطابق فرق صرف یہ ہے کہ اب یہی گاہک جوانی میں نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی شروع کرنے کے چند سال بعد نئی گاڑیاں خریدنے لگے ہیں۔
کارسازی کی صنعت جرمن معیشت کا انتہائی اہم ستون ہے۔ جرمن کارساز اداروں کو اپنی گاڑیوں کی فروخت سے ہر سال قریب 315 بلین یورو یا 437 بلین امریکی ڈالر کے برابر آمدنی ہوتی ہے۔ گزشتہ برس جرمن آٹو موبائل انڈسٹری نے جرمنی اور کئی بیرونی ملکوں میں کام کرنے والے اپنے پیداواری اور اسمبلی یونٹوں میں مجموعی طور پر 12.7 ملین نئی گاڑیاں تیار کیں۔ جرمنی میں سات لاکھ سے زائد کارکن کار سازی کی صنعت میں کام کرتے ہیں۔
رپورٹ: مقبول ملک
ادارت: عابد حسین