1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی جرمن سیاسی قوت ’’گھر بدروں کی پارٹی‘‘

14 ستمبر 2010

دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے 65 برس بعد بھی اُس جنگ کے دوران اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے جرمنوں کی یادوں میں اُس دور کی تلخی ابھی بھی باقی ہے۔ یہی شہری جرمنی میں ایک نئی سیاسی قوت کے طور پر ابھر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/PBmK
جرمن سیاستدان ایریکا سٹائن باختصویر: DW

جنگ سے پہلے یہ جرمن لاکھوں کی تعداد میں بالٹک یا پھر مشرقی یورپ کے دیگر علاقوں میں آباد تھے لیکن جنگ کے دوران سوویت سرخ فوج یا مشتعل مقامی آبادی نے اِنہیں اپنا گھر بار چھوڑنے اور واپس جرمنی کا رُخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ گھر بدر ہونے والے یہ تقریباً پندرہ ملین جرمن شہری طرح طرح کے مصائب اور فاقے جھیلتے جرمنی پہنچے، جو اُن کا اپنا وطن ہوتے ہوئے بھی اُن کے لئے ایک اجنبی ملک تھا۔

نازی جرمنی کے مظالم کا شکار ہونے والے بہت سے لوگوں سے پوچھا جائے تو انُہیں اِن ’گھر بدروں‘ سے زیادہ ہمدردی بھی نہیں ہو گی۔ مسئلہ لیکن یہ ہے کہ اِن جرمنوں کی گھر بدری اور اُن کی جرمنی میں آباد کاری تقریباً سات عشرے بعد بھی جرمن سیاست میں ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

Bund der Vertriebenen Flashgaleriebild
جرمن زبان میں ’گھر بدروں کی فیڈریشن‘ کا نام BdV یعنی Bund der Vertriebenen ہے۔تصویر: AP/dpa/DW Montage

’گھر بدروں کی فیڈریشن‘ اِنہی شہریوں کی تنظیم ہے، جو نسلاً جرمن ہیں لیکن دوسری عالمی جنگ کے دوران اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کو ابھی تک بھلا نہیں پائے۔ یہ تنظیم گھر بدر ہونے والے جرمنوں اور اُن کی آنے والی نسلوں کے مفادات کی ترجمانی کرتی ہے۔ یہ تنظیم اِس حق کے تسلیم کئے جانے کے لئے کوشاں ہے کہ ’اپنے وطن کا حق انسانیت کو خدا کی طرف سے دیا گیا حق‘ ہے۔

اپنے منشور میں یہ تنظیم واضح طور پر ہر طرح کے انتقام اور جوابی کارروائی کی مذمت کرتی ہے لیکن دوسری طرف اِس کے منشور میں نازی جرمنی کے اُن ہولناک مظالم کا ذکر تک نہیں ملتا، جو اِن جرمنوں کی گھر بدری کی اصل وجہ بنے تھے۔

اِس تنظیم کا دعویٰ ہے کہ اُس کے رجسٹرڈ اراکین کی تعداد دو ملین کے لگ بھگ ہے۔ اگر یہ دعویٰ درست ہے تو پھر اِس تنظیم کے اراکین کی تعداد جرمن چانسلر انگیلا میرکل کی دائیں بازو کی اعتدال پسند جماعت کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کے ارکان سے چار گنا زیادہ بنتی ہے۔ اِس تنظیم کی 67 سالہ سربراہ ایریکا سٹائن باخ بنیادی طور پر اِسی جماعت یعنی کرسچین ڈیموکریٹک پارٹی کی کئی برسوں سے رکن چلی آ رہی ہیں۔ اُنہوں نے جرمن والدین کے ہاں اُس دور میں پولینڈ میں جنم لیا تھا، جب اِس ملک پر نازی جرمنوں کا قبضہ تھا۔

Deutschland Bund der Vertriebenen Angela Merkel und Erika Steinbach
سٹائن باخ اکتوبر 2007ء میں اپنی تنظیم کی پچاسویں سالگرہ کی تقریب میں چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھتصویر: AP

دَس سال تک ’گھر بدروں کی فیڈریشن‘ کی قیادت کرنے کے بعد اب ایریکا سٹائن باخ انتہائی قدامت پسند ارکان کی قیادت کرتے ہوئے پورے سیاسی نظام اور خود اپنی جماعت سی ڈی یُو کو بھی چیلنج کر رہی ہیں۔ ایریکا سٹائن باخ کو نہ صرف جرمن حکومت کے اُس اقدام پر اعتراض ہے، جس کے تحت دیوارِ برلن کے ٹوٹنے اور جرمنی کے اتحاد کے بعد اوڈر نائزے کو جرمنی اور پولینڈ کے درمیان حتمی سرحد مان لیا گیا تھا بلکہ وہ اِس بات کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتی ہیں کہ دوسری عالمی جنگ کے ’گھر بدروں‘ کو ابھی تک ’متاثرین‘ تسلیم نہیں کیا گیا۔

امکان یہ ہے کہ ایریکا سٹائن باخ، جن کے خیال میں دائیں بازو کی جماعت سی ڈی یُو پر بائیں بازو کی سوچ رکھنے والوں کا غلبہ ہو چکا ہے، اِسی جماعت کے کچھ ارکان کے ساتھ مل کر قدامت پسندوں کی ایک نئی جماعت قائم کر سکتی ہیں۔ اگرچہ چانسلر میرکل اور اُن کے ساتھی سیاستدانوں نے اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ ہر ممکن کوششیں کرتے ہوئے ایسی کسی نئی جماعت کی تشکیل کو روکنے کی کوششیں کریں گے تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی کسی بھی نئی جماعت کے پارلیمان تک پہنچنے کے امکانات بہت قوی ہیں۔ خود سٹائن باخ بھی یہ کہہ چکی ہیں کہ ’ایک نئی قدامت پسند جماعت آسانی سے پانچ فیصد ووٹوں کا مطلوبہ ہدف حاصل کرتے ہوئے پارلیمان تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔‘

رپورٹ: امجد علی

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں