’میں صدر کے عہدے سے بلند ہوں گی‘، سوچی
5 نومبر 2015میانمار میں اتوار کے دن تاریخی انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ ناقدین کے بقول اس انتخابی عمل سے اس ملک میں فوجی جنتا کی طویل عرصے سے اقتدار پر چلی آ رہی گرفت میں مزید نرمی پیدا ہو جائے گی۔ میانمار میں جمہوریت کی علامت تصور کی جانے والی سوچی نے جعمرات کے دن کہا ہے کہ ان کی پارٹی کی کامیابی کی صورت میں صدر تو نہیں بن سکتیں لیکن پارٹی میں ان کا عہدہ ملکی صدر کے عہدے سے بالاتر ہو گا۔
ملکی آئین میں شامل ایک شق کے باعث سوچی صدارتی امیدوار نہیں بن سکتی ہیں۔ اس آئینی شق کے تحت غیر ملکی افراد سے شادی کرنے والے یا ان کے بچے ملک کے صدر نہیں بن سکتے۔ چونکہ سوچی نے ایک برطانوی شہری سے شادی کی تھی اس لیے مبصرین کے کہنا ہے کہ یہ آئینی شق صرف اسی لیے تخلیق کی گئی تھی تاکہ انہیں صدر بننے سے روکا جا سکے۔
تاہم 70 سالہ سیاستدان سوچی نے کہا ہے کہ اگر ان کی سیاسی جماعت نے صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی تو وہ صدر سے زیادہ اختیارات کی حامل بن جائیں گی کیونکہ اس حوالے سے کوئی آئینی پابندی نہیں ہے۔ ینگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نوبل انعام یافتہ سوچی نے کہا، ’’ حکومت میں چلاؤں گی۔ ایک صدر بھی ہو گا، جو نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی کی پالیسیوں کے مطابق کام کرے گا۔‘‘
عوامی رائے جائزوں کے مطابق سوچی کی سیاسی جماعت ’نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی‘ اس انتخابی عمل میں کامیاب ہو جائے گی۔ میانمار میں گزشتہ پچیس برسوں بعد پہلی مرتبہ آزادانہ طور پر انتخابات کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2011ء کے بعد پہلی مرتبہ منعقد کیے جا رہے ان انتخابات میں 90 سے زائد پارٹیاں حصہ لے رہی ہیں۔
سوچی نے ینگون میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ الیکشن شفاف اور بغیر دھاندلی کے ہوں گے تو ان کی پارٹی کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ہے۔ تاہم ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے ہیں کہ اتوار کو منعقد ہونے والے اس الیکشن میں بے ضابطگیاں ہو سکتی ہیں۔
دوسری طرف امریکی حکومت نے عندیہ دیا ہے کہ اگر میانمار کے الیکشن شفاف اور غیرجانبدار طریقے سے منعقد کرائے جاتے ہیں تو اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک پر عائد پابندیوں کو مزید نرم کیا جا سکتا ہے۔ تاہم سوچی نے عالمی برداری سے مطالبہ کیا ہے کہ ان انتخابات کے دوران ممکنہ دھاندلی کے امکانات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔
میانمار کے آئین کے مطابق کم ازکم پچیس فیصد پارلیمانی نشستیں فوج کو حاصل ہوں گی جبکہ سوچی کی پارٹی کو ان انتخابات میں کامیابی کے لیے باقی ماندہ نشستوں میں سے کم ازکم دو تہائی پر کامیابی حاصل کرنا گی۔