1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میونخ کا قہقہہ سکول، ہنسی زندگی ہے

9 جون 2010

جنوبی جرمن شہر میونخ میں قائم ایک لافٹر سکول میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ کس طرح قہقہوں کی مدد سے کوئی انسان ذہنی تناؤ کی شکست دے کی ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی کا لطف اٹھا سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/NYLV
تصویر: BilderBox

قہقہہ ایک بہترین دوا ہے۔ یہ کہنا ہے، جرمن شہر میونخ میں پہلے ’لاف سکول‘‘ کے خالق کرسٹوف ایمل مان کا۔ وہ اس سکول کے ذریعے لوگوں کو یہ سکھاتے ہیں کہ ہنسی انسانی صحت اور دماغ پر کتنے اچھے اثرات مرتب کرتی ہے اور اس سے آپ کس طرح اپنے آس پاس کی دنیا کو تبدیل کر سکتے ہیں۔

ایمل مان قہقہوں سے خوبصورتی محسوس کرنے کی ورزش کو ’’لاف یوگا‘‘ کہتے ہیں۔ مختلف کمپنیوں کے ملازمین اور ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو، جو کسی آپریشن کے بعد بہتری کی جانب لوٹ رہے ہوتے ہیں، ایمل مان یہ تعلیم دیتے ہیں کہ کس طرح وہ قہقہے کے ذریعے ذہنی تناؤ کو شکست دے کر جلد اچھا محسوس کرنے لگیں گے۔ ایمل مان کے مطابق ہنسی سے ذہنی دباؤ میں تو کمی آتی ہی ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ انسانی جسم اچھے اثرات کے حامل ہارمونز مثلا سیروٹونین اور ڈوپامائن بھی خارج کرتا ہے۔

Indien Gefängnis
بھارتی فزیشن مدہن کتاریا اپنے لافٹر سکول میںتصویر: picture alliance/dpa

اسکول کا آنکھوں دیکھامنظر

اسکول کے ایک حصے میں 25 سے 65 سال تک کے افراد ایک دائرے میں بیٹھے ہیں اور زوردار قہقہوں کے باعث ان کے سر ہل رہے ہیں۔ ان کی نگاہوں کی چمک کو دور سے دیکھا جا سکتا ہے۔ قریب ہی ایک اور شخص بیٹھا ہے، جس کی اس ہنسی کے مارے حالت یوں ہے کہ آنکھوں میں آنسو تک دیکھے جا سکتے ہیں۔ وہ ہم اردو میں کہتے ہیں نا خوشی کے آنسو !

یہ ہیں کرسٹوف ایمل مان، اس سکول کے گرو جی، جو یہ کہتے ہیں کہ ایک بھرپور قہقہے سے انسانی جسم کے تقریباً 300 پٹھے حرکت کرتے ہیں۔

’’ہنسی اور مذاق میرا پیشہ ہے اور میں نے اس مقصد کے لئے اپنا آپ وقف کر رکھا ہے۔ آپ خود ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اس سکول میں لاف یوگا تھیراپی کے بہترین ماہرین کام کرتے ہیں۔ زیادہ تر ہم بیمار افراد کے ساتھ کام کرتے ہیں کیونکہ اس تکنیک کی مدد سے جسم، دماغ اور روح کے درمیان ایک مضبوط ربط پیدا ہوتا ہے اور ہنسی پھیپھڑوں کی ورزشں کا بھی بہترین طریقہ ہے۔‘‘

گینوٹولوجی، ہنسی اور مذاق کے مطالعے کا علم ہے۔ یہ لفظ یونانی لفظ گیلوس یعنی قہقہے سے لیا گیا ہے۔ ایمل مان کے اس لاف سکول میں مستقل قہقہوں کا ایک سات گھنٹے کا سیشن ہوتا ہے۔ اس سیشن میں سکھایا یہ جاتا ہے کہ آپ بار بار کیسے ہنس سکتے ہیں۔ ایمل مان کے مطابق بچے دن میں تقریباًچار سو مرتبہ ہنستے ہیں لیکن بڑے عمر کے ساتھ ساتھ جیسے ہنسا بھول ہی جاتے ہیں۔ لاف یوگا میں شریک افراد سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے ہمراہ ایک بوتل پانی کی لے آئیں، اپنے جوتے اتار کر آرام دہ حالت میں آ جائیں۔ قہقہوں کی ایک گھنٹے کی مشق میں انتہا درجے کی پیاس لگتی ہے۔

Weltlachtag in Indien
بین الاقوامی لافٹر ڈے کا آغاز بھارت سے ہوا تھاتصویر: AP

اس سکول میں زیادہ تر افراد وہ آتے ہیں، جو کسی چھوٹی یا بڑی بیماری سے دوچار ہوتے ہیں۔ سونے میں مشکلات محسوس کرنے والے، سخت دباؤ میں کام کرنے والے ملازمین، نفسیاتی بیماری یا کسی بڑے آپریشن کے بعد زندگی کی طرف لوٹنے والوں کی ایک بڑی تعداد اس سکول سے استفادہ کرتی ہے۔

ایمل مان کے مطابق قہقہہ انسانی جسم میں کئی طرح کے عوامل کو متحرک کرتا ہے۔ معدے کے پٹھے ہوا کو 100 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پورے جسم میں دھکیلتے ہیں جبکہ پھیپھڑے عام حالت کی بجائے قہقہے کی صورت میں تین یا چار گنا زیادہ طاقت سے آکسیجن جذب اور خارج کرتے ہیں۔ اس سے انسان اچھا محسوس کرنے لگتا ہے۔ تاہم اس سکول میں کئی افراد ایسے بھی ہیں، جو کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ صرف اس لئے آتے ہیں کیونکہ یہاں انہیں مزہ آتا ہے۔

’’میرا نام باربرا ہے۔ میں ایسا اس لئے کرتی ہوں کہ مجھے ہنسنے میں مزہ آتا ہے، کہیں اور آپ بغیر وجہ کے اس طرح ہنس نہیں سکتے۔ کبھی کبھی تو لوگ سمجھتے ہیں، جیسے میں پاگل ہوں کیونکہ مجھے ہنسنا اچھا لگتا ہے۔‘‘

باربرا چار سال سے اس سکول میں ہیں اور اب انہیں ایک کوالیفائیڈ تربیت کار کا درجہ دیا جا چکا ہے یعنی وہ ایمل مان کی غیر موجودگی میں اس سکول میں قہقہوں کی تعلیم حاصل کرنے والوں کی کلاسز خود بھی لیتی ہیں۔

اس سکول کے زیرانتظام سیمینارز بھی منعقد کئے جاتے ہیں، جنہیں لاف سیمینارز کا نام دیا گیا ہے۔ ان سیمینارز میں مختلف کمپنیوں اور ہسپتالوں کو مدعو کیا جاتا ہے۔ ایمل مان کا کہنا ہے کہ بیس سیکنڈ قہقہے لگانے سے جسم کو وہی فائدہ حاصل ہوتا ہے، جو 15 منٹ تک دوڑنے یا 20 منٹ تک کی جوگنگ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔

رپورٹ : عاطف توقیر

ادارت : امجد علی