1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میمو گیٹ اسکینڈل: حسین حقانی اسلام آباد پہنچ گئے

20 نومبر 2011

واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی آج اتوار 20 نومبر کو علی الصبح اسلام آباد پہنچ گئے ہیں۔ حکومت کی طرف سے انہیں پینٹاگون کے نام لکھے گئے ایک متنازعے خط کی وضاحت کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/13Due
تصویر: AP

اس خط کے چھپنے والے مندرجات کے مطابق امریکی افواج کے اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن سے اپیل کی گئی تھی کہ وہ پاکستانی فوج کی طرف سے سویلین حکومت کے ممکنہ خاتمے کو روکنے کے لیے دخل اندازی کریں۔ مبینہ طور پر پاکستانی صدر آصف علی زرداری کی ایما پر لکھے گئے اس میمو میں امریکی انتظامیہ کو یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ پاکستانی حکومت اس کے جواب میں امریکی مفادات کے لیے مختلف اقدامات کرے گی۔

اس خط کے مندرجات پاکستانی اخبارات میں چھپ چکے ہیں، جس کے بعد پاکستانی حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات کشیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اس معاملے کی تحقیقات مطالبہ کر رہی ہیں۔ عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ملکی عدالت عظمٰی سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاملےکی تحقیق کے لیے از خود نوٹس لیتے ہوئے کارروائی کرے۔

مبینہ طور پر صدر زرداری کی ایما پر لکھے گئے اس میمو میں امریکی مفادات کے تحفظ لیے اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھی
مبینہ طور پر صدر زرداری کی ایما پر لکھے گئے اس میمو میں امریکی مفادات کے تحفظ لیے اقدامات کی یقین دہانی بھی کرائی گئی تھیتصویر: AP

ایڈمرل مائیک مولن کو یہ میمو رواں برس مئی میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن کے بعد لکھا گیا تھا۔ اس میمو کے سامنے آنے سے پاکستان میں اندرونی طور کھڑے ہونے والے تنازعے میں امریکہ میں پاکستانی سفیر حسین حقانی مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے اس معاملے کی وضاحت کے لیے حکومت نے حقانی کو اسلام آباد طلب کیا ہے۔ یاد رہے کہ حسین حقانی قبل ازیں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ پاکستانی کی جمہوری حکومت کو بدنامی سے بچانے کے لیے وہ اپنے عہدے سے اسعفےٰ دینے کو تیار ہیں۔

ایبٹ آباد میں امریکی فوج کے ایک خفیہ آپریشن میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے باعث ملکی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستانی حکومت اور فوج کو شدید تنقید اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اطلاعات کے مطابق اسامہ بن لادن اس کمپاؤنڈ میں پانچ برس سے زائد عرصے سے مقیم تھا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی مدد کے بغیر اسامہ بن لادن اتنے عرصے تک روپوش نہیں رہ سکتا تھا۔ ان حالات میں سیاسی حکومت کی طرف سے فوج سے بھی باز پرس کی گئی تھی۔ جس کے بعد خدشات ظاہر کیے گئے تھے کہ صدر زرداری اور وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو فوج کی طرف سے خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔

مبینہ طور پر خط میں امریکی افواج کے اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن سے دخل اندازی کی اپیل کی گئی تھی
مبینہ طور پر خط میں امریکی افواج کے اس وقت کے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائیک مولن سے دخل اندازی کی اپیل کی گئی تھیتصویر: AP

انہی خطرات کے تناظر میں ایک پاکستانی نژاد امریکی تاجر منصور اعجاز کے ذریعے یہ متنازعہ خط مائیک مولن کو بھیجا گیا تھا۔ منصور اعجاز نے جمعہ 18 نومبر کو کہا تھا کہ اس نے یہ میمو پاکستانی سفیر حسین حقانی کی ایما پر تحریر کیا تھا۔

پاکستانی صدر آصف علی زرداری سے قریبی تعلقات رکھنے والے حسین حقانی اس معاملے میں ملوث ہونے یا ایسے کسی خط سے تعلق رکھنے کی تردید کر چکے ہیں۔

ایک سینئر پاکستانی حکومتی اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ حقانی پاکستانی صدر اور دیگر رہنماؤں سے ملاقات کریں گے، تاہم اس اہلکار نے اس کا وقت یا دن نہیں بتایا۔ پاکستانی حکومت اس معاملے کی مکمل تحقیقات کی یقین دہانی کرا چکی ہے۔

رپورٹ: افسر اعوان / خبر رساں ادارے

ادارت: عابد حسین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید