1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل کا دورہ ترکی، تبصرہ

مارسل فورسٹیناؤ / شمشیر حیدر9 فروری 2016

جرمن چانسلر انگیلا میرکل مہاجرین کے بحران ختم کرنے کے لیے ترکی پر انحصار کر رہی ہیں۔ انہیں شاید عارضی کامیابی تو حاصل ہو جائے گی لیکن ان کی اپنی ساکھ ضرور متاثر ہو گی۔ اس بارے میں ڈوئچےویلے کے مارسل فورسٹیناؤ کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1Hs2o
Türkei Ankara Treffen zur Flüchtlingskrise Merkel und Davutoglu
تصویر: Reuters/U. Bektas

یورپ میں جاری مہاجرین کے موجودہ بحران میں اب نیٹو بھی شامل ہو چکا ہے۔ مہاجرین کو ترک ساحلوں سے یونان کی جانب سفر کرنے سے روکنے کے لیے نیٹو ترک اسمگلروں کے خلاف کارروائی کرے گا۔

یہ فیصلہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور ترک وزیر اعظم احمد داؤد اوگلُو کے مابین گزشتہ روز ہونے والی ملاقات میں کیا گیا ہے۔ نیٹو ممالک کے وزرائے دفاع کا اجلاس پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق بدھ کے روز برسلز میں منعقد ہو رہا ہے۔ اب اس اجلاس کے دوران مہاجرین کے بارے میں پالیسی میں نیٹو کے کردار پر بھی تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے۔

اس صورت حال میں ایک بات تو واضح ہے کہ یورپی یونین کے پاس مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے کوئی مشترکہ منصوبہ نہیں ہے۔ بات جب یورپی یونین کی ہے تو اس تناظر میں ترکی بھی یونین کا حصہ ہے کیوں کہ ترکی کو 1999 سے یورپی یونین کی ’رکنیت کا باقاعدہ امیدوار‘ کا درجہ حاصل ہے۔

لیکن پھر بھی میرکل اس ایشیائی مسلم ملک کے ساتھ ’مراعت یافتہ شراکت داری‘ کی خواہاں ہیں۔ ایک عرصے سے جرمنی کا جو موقف تھا، اب آہستہ آہستہ اس میں تبدیلی دیکھی جا رہی ہے۔

قیمت کا تعین ایردوآن کے ہاتھ میں

مطلق العنان صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں خود اعتماد ترکی معاشی اور سیاسی دونوں طرح کی قیمتوں کا تعین کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ اس کی ایک جھلک گزشتہ برس نومبر کے مہینے میں ترکی اور یونین کے مابین مذاکرات کے دوران بھی دیکھی گئی تھی۔

ترکی نے مہاجرین کو یورپ کی جانب سفر سے روکنے کے لیے نہ صرف یونین سے تین بلین یورو کی مدد حاصل کی بلکہ یورپی یونین کی رکنیت پر معطل شدہ مذاکرات بھی از سر نو شروع کیے۔

یورپ آنے والے تارکین وطن کی اکثریت کی منزل جرمنی ہے، اس لیے ترکی کو فراہم کرنے والی رقم کا بڑا حصہ بھی جرمنی ہی ادا کر رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ میرکل جن فوائد کی توقع کر رہی ہیں، وہ حاصل بھی ہو پائیں گے یا نہیں؟

ترکی سراہے جانے کے قابل نہیں

میرکل کا فیصلہ امید پر مبنی ہے۔ اسی لیے انہوں نے جرمنی کی جانب سے ترکی کو فنی معاونت بھی فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آفات سے نمٹنے والے جرمن ماہرین شام کی خانہ جنگی سے بھاگ کر ترکی میں پناہ حاصل کرنے والے شامیوں کے دکھوں کا مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔

ممکن ہے کہ ترکی کو جلد ہی مزید مالی امداد کی ضرورت بھی پڑے۔ لیکن ترکی کو مزید مدد فراہم کرنے سے اور جرمن چانسلر کے مزید دوروں سے ترکی کے قد بُلند ہو گا۔ لیکن انقرہ اس کا مستحق نہیں ہے۔

Deutschland - Türkei Angela Merkel trifft Recep Tayyip Erdogan
مطلق العنان صدر رجب طیب ایردوآن کی قیادت میں خود اعتماد ترکی معاشی اور سیاسی دونوں طرح کی قیمتوں کا تعین کرنے کی پوزیشن میں ہےتصویر: picture-alliance/dpa/D. Sanchez

ترک مدد محض عارضی حل

اس تمام صورت حال میں ترک سیاست کا آفتاب تو چمک اٹھا لیکن میرکل کے لیے اندھیروں میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ ترکی جیسے ملک پر بھروسہ کرنے سے ممکن ہے کہ جز وقتی فائدہ ہو، لیکن طویل مدت میں یہ بیکار ہی ثابت ہو گا۔

جرمنی میں مہاجرین کے بحران کا تو ابھی صرف آغاز ہے۔ ابھی بھی ہزاروں لاکھوں لوگ امدد کے مستحق ہیں۔ میرکل نے تارکین وطن کے لیے کھلے دروازے کی پالیسی اختیار کی جو داد و تحسین کی مستحق ہے۔ لیکن ترکی کے ساتھ میرکل کی بات چیت اگرچہ حقیقت پسندانہ ہے، لیکن بددیانتی پر مبنی بھی ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید