1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میرکل اور ایردوآن کی ملاقات، ترک مطالبات پر بات چيت متوقع

شمشیر حیدر17 اکتوبر 2015

یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے بحران کے حل میں ترکی کا کردار اہم ہے۔ اسی حقيقت نے یورپی رہنماؤں کو ترکی جانے پر مجبور کر دیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی اتوار کے روز ترکی کا دورہ کر رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GpoC
Merkel und Erdogan PK in Berlin 04.02.2014
جرمن چانسلر کل اتوار کے روز ترکی کا دورہ کر رہی ہیں۔تصویر: Getty Images

اتوار اٹھارہ اکتوبر کے روز جرمن چانسلر انگیلا میرکل فروری 2013ء کے بعد پہلی مرتبہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کريں گی۔ اس ملاقات میں چانسلر ميرکل یورپ میں جاری مہاجرین کے بحران کا حل تلاش کرنے پر تبادلہ خیال کریں گی۔ خیال کیا جا رہا ہے کہ انہیں اس دورے کے دوران ترکی کی جانب سے مطالبات کی طویل فہرست کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 2013ء میں انقرہ حکومت کی جانب سے گیزی پارک میں مظاہرین پر کریک ڈاؤن کے بعد سے یورپی یونین کے رہنماؤں نے شاذ و نادر ہی ترکی کا دورہ کیا ہے۔

ترک صدر ایردوآن کے لیے بھی یہ دورہ نہایت اہم ہے۔ دو ہفتے بعد، یکم نومبر کے روز ترکی میں عام انتخابات ہونے والے ہیں جس میں ترک عوام ایردوآن کے سیاسی مستقبل کا فیصلہ کرنے والے ہیں۔ ترک صدر کو طویل عرصے سے یورپی رہنماؤں کی جانب سے صرف تنقید کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اب اچانک یورپی یونین کے سربراہوں کو احساس ہوا کہ ترکی مہاجرین کے بحران کو حل کرنے کے سلسلے میں کليدی کردار ادا کر سکتا ہے۔

ترکی میں بیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین پناہ ليے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند ہیں۔ انہیں یورپ میں داخل ہونے سے روکنے کا انحصار انقرہ کی سیاسی قیادت پر ہے۔

ترکی کی موجودہ عبوری حکومت میں یورپی یونین کے امور کی وزیر بیرل دیدے اولو نے ستمبر میں اپنا عہدہ سنبھالنے سے قبل ایک گفتگو میں کہا تھا، ’’پناہ گزین اگر یورپ جانا چاہتے ہیں تو وہ جا سکتے ہیں۔ ان کی ہجرت ترکی کا مسئلہ نہیں بلکہ یونان، بلغاریہ اور یورپی یونین کا مسئلہ ہے۔‘‘

یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے ایک معاہدے کے مطابق ترکی اکتوبر 2017ء سے یورپی یونین میں ترکی کے راستے داخل ہونے والے مہاجرین کو واپس ترکی میں قبول کرے گا۔ ترکی اس تعاون کے بدلے یورپی یونین سے مطالبات کی طویل فہرست منوانا چاہتا ہے۔ مطالبات میں مہاجرین کی امداد کے لیے تین بلین یورو کے ابتدائی مالیاتی پیکج کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

ترک حکومت کی ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ ترک شہریوں کو ویزے کے بغیر شینگن زون میں آمد و رفت کے دیرینہ مطالبہ پر مثبت پيش رفت ہو سکے۔ اگر جرمن چانسلر میرکل اس دورے کے دوران ترکی کے اس مطالبے پر کوئی مثبت رد عمل ظاہر کرتی ہیں تو یہ ایردوآن کی انتخابی مہم کے لیے ایک اہم نکتہ ثابت ہو سکتا ہے۔

Flüchtlinge Grenzgebiet Türkei Syrien
انقرہ حکومت کے مطابق ترکی نے پچیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔تصویر: Reuters/K. Celikcan

رجب طيب ایردوآن کے لیے ایک اور اہم پيش رفت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ ترکی کو ’محفوظ ممالک‘ کی فہرست میں شامل کرا سکیں۔ انقرہ حکومت کی جانب سے ترک ورکز پارٹی (پی کے کے) پر پابندی لگانے اور ملک کے جنوب مشرقی علاقوں میں خانہ جنگی کی سی کیفیت ہونے کے باوجود جرمن وزیر داخلہ تھوماس ڈے ميزيئر پہلے ہی ترکی کے اس مطالبے کے حق میں بیان دے چکے ہیں۔ ترکی کو ’محفوظ ملک‘ قرار دیا جانا، ایردوآن حکومت کو حقیقی جمہوريت کے طور پر تسلیم کر لیے جانے کے مترادف ہو گا، جو ان کے سیاسی مخالفین کے نزدیک ایک مذاق ہے۔

چانسلر میرکل نے ترکی کا دورہ کرنے سے قبل ایک بیان میں کہا ہے کہ وہ دورے کے دوران ترکی میں انسانی حقوق کی صورتحال کا معاملہ بھی اٹھائيں گی۔ جرمن حکومت کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق، ’’اتوار کے روز ہر مسئلے پر بات چیت کی جائے گی۔‘‘ ان مسائل میں شام کی صورت حال، ترک شہريوں کے ليے يورپی ممالک کے ویزوں کا معاملہ، ترکی کو ’محفوظ ملک‘ کا درجہ دینا، دہشت گردی کے خلاف مشترکہ جدوجہد اور ترکی میں انسانی حقوق کی صورت حال شامل ہیں۔

ترکی کافی عرصے سے اس بات پر بھی زور دے رہا ہے کہ شامی مہاجرین کے لیے شام کے اندر ہی ایک ’محفوظ علاقہ‘ بنایا جائے گرچہ یہ واضح نہیں ہے کہ ایسا مجوزہ زون کیسے اور کہاں بنایا جائے اور اس کی حفاظت کو کس طرح یقینی بنایا جائے۔ تاہم نیٹو کی جانب سے ترکی کی اس تجویز پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آيا۔ انقرہ حکومت اس کوشش میں بھی ہے کہ ترکی کی یورپی یونین کی رکنیت حاصل کرنے کے معاملے پر بھی پیش رفت ہو سکے۔ چانسلر میرکل کے موجودہ دورے میں یہ نکتہ ایجنڈے کا حصہ نہيں ہے۔

گزشتہ دنوں ایردوآن نے شکوہ کیا تھا کہ جرمنی چند لاکھ مہاجرین کو پناہ دے تو انگیلا میرکل کو نوبل انعام دینے کی باتیں ہوتی ہیں۔ ترکی نے پچیس لاکھ مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے لیکن اس بات میں کسی کو دلچسپی نہیں۔ پانچ اکتوبر کو ایردوآن نے برسلز کا دورہ کیا تھا۔ اس دورے کے دوران انہیں بار بار یہ سننے کو ملا کہ یورپ میں جاری مہاجرین کا بحران ترکی کی مدد کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔ اس پر ان کا جواب تھا، ’’اگر ترکی کے بغیر یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا تو پھر آپ ترکی کو یورپی یونین میں شامل کیوں نہیں کر لیتے؟‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید