1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں نئی پارلیمنٹ کا اجلاس

31 جنوری 2011

میانمار میں گزشتہ برس نومبر کے انتخابات کے بعد نئی پارلیمنٹ کا پہلا سیشن پیر کو ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی نیا آئین بھی مؤثر ہوگیا ہے جبکہ عسکری حکومت کا باقاعدہ خاتمہ بھی ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/107c9

میانمار میں گزشتہ پانچ دہائیوں سے فوجی حکومت چلی آ رہی تھی، اس تناظر میں نئی پارلیمنٹ کے سیشن کو اہم قرار دیا جا رہا ہے۔

خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غیرملکی میڈیا کو پارلیمنٹ کی کارروائی دیکھنے کی اجازت نہیں دی گئی، نہ ہی انہیں پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تصاویر لینے دی گئیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس مقامی وقت کے مطابق تقریباﹰ نو بجے شروع ہوا، جس میں تمام ارکان شریک ہوئے۔

دوسری جانب نومبر میں ہوئے انتخابات پر میانمار میں جمہوریت نوازوں اور مغربی حکومت نے تنقید کی تھی۔ ان انتخابات میں بے ضابطگیوں اور دھاندلی کے الزامات بھی لگائے گئے اور ان کے ذریعے فوج اپنے من پسند رہنما پارلیمنٹ میں لانے میں کامیاب رہی ہے۔ دوسری جانب پارلیمنٹ میں ایک چوتھائی نشستیں انتخابی عمل سے پہلے ہی فوج کے لئے مختص کر دی گئی تھیں۔

Aung San Suu Kyi
آنگ سان سوچیتصویر: AP

یہ نکتہ بھی اہم ہے کہ نومبر کے انتخابات جمہوریت نواز رہنما اور نوبل امن انعام یافتہ آنگ سان سوچی کی غیرموجودگی میں ہوئے، جو اس وقت نظربند تھیں اور انہیں انتخابات کے بعد رہا کیا گیا۔ سوچی تقریباً 15برس قید یا نظر بند رہیں جبکہ فوجی حکومت نے انہیں نومبر کے انتخابات میں حصہ لینے سے بھی روک رکھا تھا۔

ان کی جماعت نے 1990ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تاہم انہیں کبھی اقتدار میں آنے کا موقع نہیں دیا گیا۔

آنگ سان سوچی کو میانمار میں ’دی لیڈی‘ کہا جاتا ہے اور وہ آزادی کی ایک علامت رہی ہیں۔ وہ ینگون میں اپنے ہی گھر میں مقید رہیں، جہاں دو خاتون خدمت گار ان کے ساتھ موجود رہیں۔ تاہم انہیں ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کی سہولت حاصل نہیں تھی، جس کی وجہ سے بیرونی دُنیا سے ان کا رابطہ منقطع رہا۔

رپورٹ: ندیم گِل/خبررساں ادارے

ادارت: عدنان اسحاق

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں