1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میانمار میں سمندری طوفان کے بعد امدادی کاموں میں خلل

15 مئی 2008

میانمار سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اڑتیس ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ بین الاقوامی امدادی تنظیم ریڈ کراس نے کہا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/E0MN
ینگون میں خوراک کی تقسیم کا منظرتصویر: AP

دو اعشاریہ پانچ فیصد متاثرین امداد کے منتظر ہیں لیکن فوجی حکومت غیر ملکی امدادی کارکنوں کی ملک آمد پر پریشان ہے۔

اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مون نے میانمار میں نرگس نامی سمندری طوفان کی تباہ کاریوں کے بعد وہاں امدادی کاروائیوں کو موثر بنانے کےلئے کی جانے والی ایک اہم ہنگامی میٹنگ کے بعد ، صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کے نائب سیکرٹری جنرل جان ہولمز ، عالمی خوراک پروگرام کے سینئر اہکاروں کے ہمراہ ، آ ئندہ کچھ دنوں میں میانمار جایئں گے۔

Afrika: Ban Ki-Moon beim African Union Summit
اقوام متحدہ کے سربراہ بان کی مونتصویر: AP

اقوام متحدہ کے اس خصوصی وفد کا میانمار روانہ کرنے کا مقصد بتاتے ہوئے بان کی مون نے کہا کہ میانمار میں سمندری طوفان کے بعد ابھی بھی بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں امدادی کاروائیاں یا تو نہ ہونے کے برابر ہیں یا موثر نہیں ۔ اس لئے اقوام متحدہ نے فیصلہ کیا کہ ایک خصوصی وفد میانمار روانہ کیا جائے تاکہ ینگون فوجی حکومت کو راضی کرنے کی کوشش کی جائے کہ وہاں غیر ملکی امدادی کارکنوں پر عائد پابندی ختم کی جائے۔

اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ بارہ روز قبل ، تین مئی کو آنے والے سمندری طوفان کے نتیجے میں ایک لاکھ تیس ہزار افراد ہلاک جبکہ پچیس لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں اور اگرمتاثرہ افراد تک جلد از جلد امدادی سامان نہیں پہنچایا جاتا تو ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

بان کی مون نے کہا کہ اقوام متحدہ کی معلومات کے مطابق طوفان کے دو ہفتوں کے بعد تک اب بھی صرف پچاس ہزار افراد تک امدادی ٹیموں کی پہنچ ہو سکی ہے جبکہ باقی بے یار و مدد گار ہیں۔

جان ہولمز نے کہا کہ ینگون حکومت نے امدادی کاروائیوں میں کافی نرمی برتی ہے اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں تاہم امدادی کاموں میں اضافے اور بہتری کے لئے ابھی انہیں مزید نرمی برتنے کی ضرروت ہے اور اقوام متحدہ کو مکمل اجازت ہونا چاہئے کہ وہ متاثرہ افراد تک بغیر کسی روک ٹوک کے رسائی حاصل کر سکیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے دیکھا ہے کہ کچھ علاقوں میں تھوڑی بہت امدادی کاروایئاں جاری ہیں۔ لیکن بڑے پیمانے پر امدادی کاروایئوں میں سرکاری طور پر پابندیوں کا سامنا ہے۔ انہوں نے خیال ظاہر کیا کہ جن مشکل اور سخت حالات میں سے متاثرین گزر رہے ہیں اس حوالے سے یہ امدادی کارویئاں ناکافی ہیں ۔

Myanmar Militär Zeremonie in Naypyitaw
میانمار کے فوجی حکمران جنرل تن شوئیتصویر: AP

دوسری طرف میانمارحکومت غیر ملکی امدادی کاررکنوں کی ملک آمد پر اپنے کڑے تحفظات پر قائم ہے۔

اسی اثنا جنوب مشرقی ایشائی ملکوں کی تنظیم ، آسیان کے سربراہ نے کہا ہے کہ میانمارفوجی حکومت نے اس بات پر رضا مندی ظاہر کر دی ہے کہ آسیان کی امدادی ٹیمیں نقصان کا اندازہ اور امدادی کاموں کے لئے اپنی ٹیمیں بھیج سکتیں ہیں ۔ واضح رہے کہ میانمار بھی آسیان کا رکن ملک ہے۔